حکومت اپوزیشن مذاکرات کی بازگشت ،واضح موقف سے گریز
( تجزیہ :سلمان غنی) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ کے عمل کے باوجود پھر سے ’’مذاکرات‘‘کی بازگشت سننے میں آ رہی ہے ، ایسے مذاکرات کب کہاں اور کن ایشوز پر ہوں گے ، اس حوالہ سے کوئی بھی واضح موقف کا اظہار کرتا نظر نہیں آ رہا۔
البتہ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اﷲ کی جانب سے سیاسی ڈائیلاگ کی دعوت پر اپوزیشن نے کہا ہے کہ مذاکرات سیاسی قوتوں سے ہوسکتے ہیں اور اس حوالہ سے ن لیگ کے قائد نواز شریف کو آگے آنا اور سب کو مل بٹھانا ہوگا اور سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال کر آگے چل سکتی ہیں، ہائبرڈ نظام ملک کے جمہوری سسٹم کو آگے نہیں بڑھنے دے رہا اور اس سے نجات کیلئے 1973ء کے آئین کی بحالی کے ساتھ آگے بڑھا جاسکتا ہے ، 26 ویں آئینی ترمیم سے نجات کیلئے سنجیدگی اختیار کرنا چاہئے ۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے ذمہ دار ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں تو اس پر پیش رفت کیونکر ممکن ہوئی، پی ٹی آئی اب اسٹیبلشمنٹ کی بجائے سیاسی قوتوں سے مذاکرات کی بات کیوں کرتی نظر آ رہی ہے ۔کیا سیاستدان قومی ایشوز پر مل بیٹھنے کو تیار ہوں گے اورکیا آج کے حالات سے نجات میں نواز شریف کوئی بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ہماری قومی سیاسی بدقسمتی رہی ہے کہ حکومت و اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک چلانے کی بجائے ایک دوسرے کو گرانے اور اس کی اہمیت پر اثرانداز ہونے کیلئے سرگرم رہے اور اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ جمہوریت اور سیاست مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتی گئیں او رآج عملاً اگر دیکھا جائے تو ملک میں جمہوریت اور جمہوری سسٹم ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں میں کوئی مضبوط اپوزیشن نظر نہیں آ رہی اور خود حکومت اور اپوزیشن دونوں کو فیصلہ سازی میں کردار نظر نہیں آ رہا ۔ پی ٹی آئی 9 مئی کے واقعات کی بنا پر سخت مشکلات سے دوچار نظر آ رہی ہے ، پی ٹی آئی کی لیڈر شپ خصوصاً بانی پہلے پہل تو مذاکرات کی بجائے احتجاج کے خواہاں رہے اور ان کا مطمع نظر یہی رہا کہ وہ احتجاج اور مزاحمتی عمل کے ذریعہ حکومت اور ریاست کو سرنڈر کرنے پر مجبور کردیں گے لیکن احتجاج کے تمام آپشنز استعمال کرنے کے باوجود ان کی قوت میں اضافہ کی بجائے نہ صرف کمی آئی۔
بلکہ ان کی احتجاجی کیفیت اور صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوئی اور خود بانی پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش بھی پروان نہیں چڑھ سکی اور خود اسٹیبلشمنٹ نے بھی بانی پی ٹی آئی کے طرز عمل کے باعث اس سے صرف نظربرتا اور سیاست پر انہیں حکومت سے مذاکرات کا راستہ دکھائی نہیں دیا اور اب 9 مئی کے واقعات پر پی ٹی آئی اپنی لیڈر شپ اور ذمہ داران کو ہونے والی عدالتی سزاؤں کے بعد مایوسی کا شکار نظر آ رہی ہے ۔مسلم لیگ ن سیاسی ڈائیلاگ کی بات تو کرتی نظر آتی ہے مگر وہ اس حوالہ سے کوئی بھی پیش رفت ریاست کی مرضی کے بغیر نہیں کرے گی ،پیپلزپارٹی بھی مذاکراتی آپشن پر ازخود پیش رفت کرنے کو تیار نہیں ہوگی لیکن ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ملک کو اگر واقعتاً ترقی و خوشحالی کی سمت لے جانا ہے تو سیاسی قوتوں کے درمیان ڈیڈلاک کو ختم کرکے ڈائیلاگ کی طرف بڑھنا ہوگا ،ملک زیادہ دیر تک سیاسی محاذ پر تناؤ کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی یوم آزادی کے موقع پر میثاق استحکام پاکستام کی پیشکش کی تھی لیکن پی ٹی آئی نے اس حوالہ سے کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا، لیکن اب قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نواز شریف کو مخاطب کرتے نظر آ رہے ہیں او ران سے قومی ایشوز پر ڈائیلاگ یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن کیا ن لیگ کے قائد نواز شریف اس پر توجہ دیں گے ۔ جب تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی امن ایجنڈا طے نہیں پائے گا بات بن سکے گی نہ چل سکے گی۔ایک حقیقت یہ ہے کہ قبل ازیں مذاکرات نہ چلنے کی ذمہ داری بانی پی ٹی آئی پر آتی ہے اور جیل سے باہر بھی اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان اگر مذاکراتی عمل چل نہیں پایا تو اس کی بڑی وجہ بھی اڈیالہ جیل کاباسی ہے ،لہذا اب جب پارٹی کے ذمہ دار قومی ایشوز پر ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں تو انہیں اڈیالہ جیل سے اس کی تائید حاصل کرلینی چاہئے ۔