نئی دہلی سے دوستی کا عمل طالبان کو انجام کی طرف لے جائیگا

نئی دہلی سے دوستی کا عمل طالبان کو انجام کی طرف لے جائیگا

(تجزیہ:سلمان غنی) افغانستان کے وزیرخارجہ ملا متقی کی بھارت کے دورہ کے حوالے سے خبروں کو علاقائی صورتحال، پاک افغان تعلقات کار اور چین سے مراسم کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔

 گو کہ ابھی ملا متقی کے دورہ کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ،لیکن افغان ذرائع اس امر کی تصدیق کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آئندہ ہفتے ملا متقی نیو دہلی کا دورہ کریں گے ۔ دورہ کے ساتھ ہی خود طالبان انتظامیہ، اس کی حکمت عملی اور علاقائی صورتحال میں ان کے کردار پر بہت سے سوالات اٹھیں گے ۔ سب سے اہم یہ کہ بھارت جو طالبان انتظامیہ کے قیام کا بڑا مخالف تھا اور آج تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تو وہ کونسی وجوہات ہیں کہ نئی دہلی اور کابل کے درمیان برف پگھلی اور افغان وزیرخارجہ بھارت کا رخ کر رہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان انتظامیہ پاکستان کے امریکا سے بڑھتے ہوئے تعلقات اور بیرونی محاذ پر ملنے والی پذیرائی پر پریشان ہے اور اسے مستقبل میں اپنے لئے خطرناک سمجھ رہی ہے ۔ لیکن پاکستان افغانستان کے حوالہ سے ابھی تو اپنے اس موقف پر کاربند نظر آتا ہے کہ علاقائی استحکام کا دارومدار افغانستان میں امن پر ہے اور افغان طالبان کو اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہوگا اور یہ عمل خود افغانستان کے بھی بہتر مفاد میں ہوگا۔

تاہم عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بارہا شواہد پیش کرنے اور افغان انتظامیہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کے باوجود دہشت گردی کا سلسلہ نہیں رک پا رہا اور پاکستان نئے حالات میں اپنے مغربی بارڈر پردہشت گردی کے عمل کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ طالبان کی جانب سے نئی دہلی کا رخ دراصل پاکستان کیلئے پیغام ہے ، اور بھارت جس نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا حالیہ عرصہ میں اس کے طالبان حکومت کے ساتھ روابط میں بہتری آئی ہے ۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے عمل کے دوران بھی افغان نائب وزیرخارجہ کے دورہ بھارت کی خبریں سامنے آئی تھیں اور اس مرحلہ پر بھی افغان وزیر خارجہ ملا متقی کے دورہ بھارت کو سفارتی محاذ پر اہم پیشرفت کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان بھی اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح دہلی کی طرف دیکھتے نظر آ رہے ہیں۔طالبان کی برسراقتدار آنے والی حکومت کو پاکستان دوست حکومت سمجھا جاتا رہا ،لیکن جوں جوں پاکستان میں دہشت گردی کے عمل میں تیزی آئی اور اس حوالہ سے ڈانڈے سرحد پار ملتے دکھائی دئیے تو پاکستان اور افغان طالبان انتظامیہ میں اختلافات بڑھے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے حالات میں افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی بھارت کی طرف دیکھنے کی حکمت عملی انہی کیلئے نقصان دہ ہوگی ،کیونکہ بھارت طالبان کو کچھ فائدہ دینے کی پوزیشن میں نہیں اور بھارت سے تجارتی تعلقات بھی پاکستان کے مقابلہ میں ان کیلئے بہت مشکل ہوں گے ۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ طالبان پر اصل دباؤ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے حوالہ سے ہے اور وہ پاکستان کے دباؤ سے نکلنا چاہتے ہیں ،لیکن خود پاکستان کو بھی ان سے روابط بحال رکھنے چاہئیں، اس لئے کہ افغانستان سے ہمارا بارڈر ملتا ہے اور وہ پاکستان سے بہت سی مراعات کا خواہاں ہے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ دو طرفہ تعلقات کار کے ذریعہ ہی مسائل کا حل نکالا جائے ،یہی پاکستان اور طالبان کے حق میں ہے ۔البتہ بھارت کے اندر پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار کے بعد یہ سوچ ابھر رہی ہے۔

کہ ایسی صورتحال میں طالبان سے مکمل دوری ناقابل عمل ہے اور اس بنیاد پر اس نے طالبان انتظامیہ میں اپنے حامیوں سے روابط شروع کر رکھے ہیں، لیکن مذکورہ صورتحال کے باوجود اب بھی طالبان انتظامیہ میں شامل اکثریت پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کو ترجیح دینے کے خلاف ہے اور سمجھتی ہے کہ شکایات کے ازالہ کے ذریعہ تعلقات کار بحال رہنے چاہئیں ۔ تاہم پاکستان بھی مذکورہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ۔طالبان کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے عمل سے ہی طالبان نے اپنا رخ اسلام آباد پھیرنا شروع کیاتھا۔ لیکن اب بھی غیر جانبدار ماہرین یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ کابل کیلئے اسلام آباد ہی نئی دہلی کے مقابلہ میں مددومعاونت کا باعث بنے گا ،نئی دہلی سے دوستی کا عمل خود طالبان کو اپنے انجام کی طرف لے جائے گا۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ ملا متقی بھارت جاتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر جاتے ہیں تو ان تعلقات کی بنیاد کیا ہوگی، پھر اسلام آباد بھی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرسکتاہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں