انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ پر شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم

انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ پر شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم

جان کے خطرے کی صورت میں پولیس خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز:ہائیکورٹ جسٹس امجد رفیق کا سیف علی کی درخواست پر تحریری فیصلہ ،سکیورٹی دینے کا حکم

لاہور (محمد اشفاق )لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ پر شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے ، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے ، ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنا پر درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے ، پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے ۔ شہری سیف علی کی درخواست پر 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے ، قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا ، ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا ۔

درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسزمیں گواہ ہے ، وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے ،مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا انکاؤنٹر ہو گیا ہے مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے ، پولیس نے درخواستگزار کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔جسٹس امجد رفیق نے فیصلے میں لکھا کہ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی ،ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں،ان کیٹگریز میں وزیر اعظم ،چیف جسٹس ،چیف جسٹس ہائیکورٹ ،بیوروکریٹس و دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے ۔

پالیسی کے پیرا پانچ کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے ، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کے لئے پنجاب سپیشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا ۔فیصلے کے مطابق پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی ،درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیاں شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتی ہیں، ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنا پر درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے ۔ عدالت نے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں