تہران کانفرنس:طالبان کو ذمہ داریوں پر کون آمادہ کرے ؟

تہران کانفرنس:طالبان کو ذمہ داریوں پر کون آمادہ کرے ؟

کانفرنس دہشت گردی کے مسئلے کے حل کی جانب ایک سنجیدہ قدم ہے ، ماہرین

(تجزیہ: سلمان غنی)

تہران کانفرنس میں افغان سرزمین سے ابھرنے والے دہشت گردی کے مسلسل خطرے کو خطے کے لیے باعثِ تشویش قرار دیا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ خطے کے ممالک اس صورتحال پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ سب یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک افغان سرزمین سے دہشت گردی کا ناسور ختم نہیں ہوتا، خطے میں امن و استحکام ممکن نہیں بن سکتا ۔یہ اسی صورت ممکن ہے کہ تمام ممالک اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور افغان انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہو، اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے محفوظ بنائے اور خطے کے ممالک کے خدشات کا ازالہ کرے ۔لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ افغانستان اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کر پا رہا، عالمی برادری اس ایشو پر کب اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس کانفرنس کو افغان صورتحال، خصوصاً دہشت گردی کے عمل اور خطے میں پیدا شدہ تشویش کے تناظر میں اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔

خصوصاً پاکستان نے اس کانفرنس میں اس امر پر زور دیا کہ ہم صرف ایسے افغانستان پر اعتماد کر سکتے ہیں جو ہماری سلامتی کے لیے خطرہ نہ ہو اور جس کی سرزمین دہشت گردی سے پاک ہو۔یہ خوش آئند امر ہے کہ پاکستانی مؤقف کو پذیرائی ملی۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جانا چاہیے ،خصوصاً ایران کا مؤقف بڑا واضح رہا کہ افغان سرزمین پر دہشت گردی سب کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے اور تمام ممالک کو اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہیے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاقائی محاذ پر اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر اتفاقِ رائے موجود ہے ، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ افغان انتظامیہ پر کون اور کیسے اثر انداز ہو کر اسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر آمادہ کرے ۔اس ضمن میں چین اور روس کا کردار اہم ہو سکتا ہے ، کیونکہ دونوں کے افغانستان میں اپنے مفادات وابستہ ہیں۔

چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ روس نے افغان حکومت کو تسلیم کر کے اپنے مفادات کو تقویت دی ہے ۔ دونوں ممالک نہیں چاہیں گے کہ افغانستان انارکی کا شکار ہو، کیونکہ اس کے منفی اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے ۔نئی پیدا شدہ صورتحال میں ایک بڑا مسئلہ بھارت کا افغان انتظامیہ کی پشت پر کھڑا ہونا ہے ۔ یہ عمل امن کے لیے نہیں بلکہ ایک مذموم ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے ، جس کا مقصد افغان سرزمین کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنا ہے۔

پاکستان اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ، سفارتی محاذ کو متحرک کیے ہوئے ہے اور افغان انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور مذموم عزائم کو بے نقاب کر رہا ہے، تاکہ عالمی برادری کو معلوم ہو کہ پاکستان امن چاہتا ہے ، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانا چاہتا ہے ۔اگر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور دہشت گردی کی سرپرستی ہوتی رہی تو پاکستان آخری آپشن استعمال کرنے کے لیے بھی تیار ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے ۔ ان کے نزدیک تہران کانفرنس مسئلے کے حل کی جانب ایک سنجیدہ قدم ہے اور اس کے اثرات دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، جس کا دباؤ افغان انتظامیہ پر ضرور پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں