روندے پتھر پہاڑاں دے

( پانچ فروری‘ خالد حسن کی پانچویں برسی تھی ۔یہ کشمیر کے لوگوں سے یک جہتی کے اظہار کا دن بھی ہے۔ خالد‘ کشمیری تھے۔ انہوں نے واشنگٹن میں کشمیر سے متعلق اطلاعات کا ایک دفتر بھی کھولا۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر خورشید الحسن خورشید ان کے برادر نسبتی تھے مگر یہ بات شِوسینا کے ان لٹھ بردار کارکنوں کو معلوم نہیں تھی جنہوں نے ایک دن پہلے ممبئی پریس کلب میں ان کے بھتیجے میکال حسن کی پریس کانفرنس کی بساط لپیٹ دی تھی ۔میکال اپنے بینڈ کے ہمراہ وہاں گئے تھے اور ہندوستانی موسیقاروں کے اشتراک سے پاک بھارت امن کوشش کو آگے بڑھانا چاہتے تھے)۔ 
سترہ دن میں نے ایک پہاڑ کو پگھلتے دیکھا۔خالد حسن کی بیماری کی خبر پاکستان اور یہاں امریکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھی۔ ساری دنیا میں ان کے دوستوں کا حلقہ تھا ۔سرینگر میں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے‘ سیالکوٹ میں جہاں پرورش پائی‘ لاہور میں جہاں انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا ۔واشنگٹن میں جہاں انہوں نے ایک فیلو شپ اور وونیتا سے شادی کی‘ لندن‘ پیرس اور اوٹاوا جہاں انہوں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں سفارتی خدمات سر انجام دیں ۔ ایک فون وی آنا سے آیا جہاں انہوں نے دس سال OPEC کی خبر رساں ایجنسی میں کام کیا تھا اور ہندوستان میں بھی دکھ کا اظہار کیا جا رہا تھا جہاں خوشونت سنگھ‘ اندر ملہوترا اور وید بھسین جیسے دوست تھے ۔
ان کی حالت بگڑ رہی تھی ۔آئی سی یو سے انہیں ایک چھوٹے اور چیزوں سے اٹے کمرے میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ ایک اور مریض کے سانجھی تھے ۔ ا س کمرے کا ٹائلٹ تہ کیا جا سکتا تھا اور ایک دیوار سے پیوست تھا ۔غا لباً اس علاقے میں رکھے جانے والے بیماروں کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ بستر کے پاس صرف ایک کرسی تھی ۔ خالد کے منہ پر آکسیجن کا توبرا چڑھاتھا انہوں نے اشارتاً عابدہ وقار ( رپلی )کے گھر پر ہونے والی موسیقی کی محفل کے بارے میں پوچھا جس میں وہ خود بھی مدعو تھے۔ میں اس محفل میں گیا تھا اور عابدہ کے بیٹے عمر وقار کی لکھی ہوئی انگریزی نظموں کے دو مجموعے لا یا تھا جن میں سے ایک خالد کے لئے تھا۔ انہوں نے کتاب پر ایک نظر ڈالی اور اشارتاً کہا کہ لڑکے میں جو ہر قابل ہے ۔ میں گھر واپس آ گیا ۔رات کو جیفری نے فون کیا اور بتایا کہ ایک بہی خواہ اباکو دیکھنے ہسپتال پہنچ گیا تھا اور وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ایسی آمد و رفت کو روکا نہیں جا سکتا ؟ میں نے کہا: کوشش کروں گا۔
دوست صرف اس خالد حسن کو جانتے تھے جو خوبرو‘ صحت منداور چاک چوبند تھے اور موقع محل کے مطابق لباس زیب تن کرتے تھے ۔وہ بات بات پر لطیفے سناتے تھے اور سیالکوٹ‘ گھوڑا گلی اور لاہور کے لوگوں کی مزاحیہ داستانیں دہراتے تھے ۔انکم ٹیکس کے محکمے میں اپنے افسر کا تذکرہ بڑے احترام سے کرتے تھے جو ان کی طرح کے نو واردوں کو اپنے تجربات سے نوازتے تھے اور ان پر پند و نصائح کی بارش کرتے تھے ۔ملنے والوں کو وہ ادب و فن اور بین ا لاقوامی امور پر اپنی گرفت سے ششدر کر دیتے تھے اور کلاسیکی موسیقاروں کے بارے میں بے تکان گفتگو کرتے تھے ۔ وہ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں با تیں کر سکتے تھے جو طنز و مزاح سے بھر پور ہوتی تھی ۔وہ بین الا قوامی کرکٹ سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر میرے ساتھ اس کھیل پر گفتگو کرنے سے احتراز کرتے تھے ۔انہیں معلوم تھا کہ مجھے کسی بھی کھیل سے لگاؤ نہیں ۔ اس معاملے میں ان کے شریک گفتگو سید مواحد حسین شاہ ہوتے۔
ہسپتال کے بستر پر بیرونی امداد سے سانس لیتے وہ کسی ملاقاتی سے ملنے اور روائتی سوالوں کے جواب دینے کے لئے تیار نہ تھے ۔ اس حالت میں وہ دوستوں سے بھی دور رہنا چاہتے تھے ۔نیو یارک میں کچھ احباب نے انور اقبال کے توسط سے دھمکی دی کہ وہ ان سے ملنے واشنگٹن آئیں گے ۔انہیں سمجھا بجھا کر روکنا پڑا ۔میں نے خالد کے پاؤں متورم ہوتے دیکھے تو گھبرا کر ڈاکٹر سے استفسار کیا ۔اس نے مایوسی سے میری جانب دیکھا اور کہا کہ مریض کا بیٹا اس سے زیادہ جارحانہ علاج Aggressive Treatmentکے حق میں نہیں۔ موت سے چار دن پہلے خالد کو کینسر وارڈ میں منتقل کر دیا گیا جو کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوئی تھی۔ یہ کمرہ کشادہ اور آرام دہ تھا۔ تمام ضروری آلات سے لیس تھا اور ایک وقت‘ ایک ہی مریض وہاں رکھا جا سکتا تھا۔ اس میں مریض کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے کاؤچ نما بستر بھی تھا ۔ ہم باری باری ان کے پاس رہتے تھے ۔ آخری دنوں خالد نے آنکھیں بند کئے مجھ سے کہا کہ میں ان کا ہاتھ تھاموں اور ان کے بازو کو سہلاؤں ۔ غالباً وہ زندگی سے جڑے رہنے کے آرزو مند تھے ۔انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ وونیتا کہاں ہیں ؟ میں نے کہا گھر سے چل پڑی ہیں آتی ہی ہوں گی۔ خالد نے کہا کہ وہ دن اور رات کا امتیاز کرنے سے قاصر ہیں۔ 
اگلے دن شائد انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ انجام قریب ہے ۔تاہم انہوں نے اپنا وقار قا ئم رکھا۔ انہوں نے اپنے کنبے کو اپنی تمناؤں سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے قریبی دوستوں کا ایک چھوٹا سا گروہ ان کے ٹاؤن ہاؤس کے پچھواڑے جمع ہو اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کرے ۔انہوں نے ''منہ دکھانے‘‘ کی ممانعت کر دی تھی جو امریکی فیونرل ہومز اور پاکستان میں ایک رواج ہے ۔وی آنا ورجینیا میں ان کے گھر کے پچھواڑے بمشکل دس آدمیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش تھی ۔ہمیں معلوم تھا کہ دوست بڑی تعداد میں انہیں الوداع کہنے آ ئیں گے ۔لاہور کے ایک اخبار نے جس کے وہ واشنگٹن میں نامہ نگار تھے ڈاکٹر عبداللہ خالد سے بات کرکے یہ خبر دے دی تھی کہ ان کا آدمی آخری دموں پر ہے اور یہ اطلاع انٹر نیٹ پر تھی۔
خالد حسن کی زندگی کی آخری صبح‘ پانچ فروری کو‘ جیفری نے فون کیا اور کہا کہ وہ شفقت پدری سے محروم ہو رہا ہے ۔میں جلدی سے ہسپتال پہنچا ۔شکیل میاں جو ایک باریش مذہبی آدمی ہیں اور سب کے دوست ہیں‘ خالد کے سر ہانے تھے ۔وہ بے ہوش خالد کو مخاطب کرکے بولے۔ اکمل آ گیا ہے ۔میں اجازت چاہتا ہوں ۔جنت میں ملاقات ہو گی۔ میں نے خالد کا ہاتھ تھام لیا۔ وونیتا شوہر کی تیمار دار تھیں‘ گاہے گاہے ان کا آکسیجن ماسک ہٹا کر ان کے خشک ہونٹوں کو تر کرتی تھیں اور ان سے کہتی تھیں۔ ''ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔ خالد‘‘
شکیل اور دوسرے دوستوں کی ہدایت پر خالد حسن کا جسد خاکی بعد از دوپہر ایک اسلامی فیونرل ہوم میں منتقل کر دیا گیا۔ رات ہونے پر ڈاکٹر عبداللہ نے فون کیا اور کہا کہ خالد کی میت جس جگہ رکھی گئی ہے وہ موزوں نہیں ہے ۔مرحوم کو یہ رات کہیں اور گزارنی چاہیے۔ میں نے کہا یہ جگہ میرے گھر کے قریب ہے ۔مجھے جا کر دیکھنے دیجیے۔ تھوڑی دیر میں حتمی فیصلہ کریں گے۔ میں گیا۔ میرے ہاتھ میں ایڈریس تھا مگر جگہ ڈھونڈھنے میں دشواری ہو رہی تھی ۔ میں نے ایک تاریک گلی میں اسلامی فیونرل ہوم ڈھونڈ لیا۔ اس پر تالہ لگا ہوا تھا اور لگتا تھا کہ میرا دوست شدید سردی میں اکیلے اندر پڑا ہے۔میں کانپ اٹھا۔

 

یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کا احاطہ نا ہموار اور کچا تھا اور اس میں وہ کھٹارہ سی گاڑی کھڑی تھی جس میں میتوں کی نقل و حمل ہوتی ہے۔اس گلی میں پرانی موٹریں مرمت ہوتی تھیں اور راہ میں جگہ جگہ استعمال شدہ ٹائر اور ناقابل استعمال پرزے پڑے تھے ۔ واپس آکر میں نے ڈاکٹر عبداللہ کو فون کیا اور ان سے اتفاق کیا کہ جگہ خالد کے شایان شان نہیں اور اگلے دن مرحوم کے دوستوں اور عزیزوں کو نماز جنازہ کے لئے اس بوسیدہ عمارت کے احاطے میں جمع نہیں کیا جاسکتا مگر اس وقت متبادل انتظام کرنا سخت مشکل ہے۔ چنانچہ طے پایا کہ رات بھر کے لئے میت وہیں رہنے دی جائے اور اگلے دن جنازے کے لئے اسے دار الہدیٰ مسجد‘ سپرنگ فیلڈ‘ لایا جائے۔ جیسا کہ توقع تھی مسجد کے باہر مرحوم کے بے شمار دوست اور عزیز و اقارب موجود تھے ۔ ان میں نیو یارک کے وہ ہم پیشہ بھی شامل تھے جنہیں بمشکل تمام واشنگٹن آنے سے روکا گیا تھا۔پھر وہ امریکی دانشور تھے جن سے مرحوم ملتے جلتے تھے ۔ نماز جنازہ کے بعد میت سڑک کے راستے ورمانٹ روانہ کر دی گئی ۔مسز حسن‘ شوہر کو اپنے قریب رکھنے کے لئے ان کا جسد خاکی اپنے میکے لے جا رہی تھیں ۔
خالد حسن سے میری ملاقات 1966ء میں ہوئی جب وہ اخبار پاکستان ٹائمز میں کام کرنے آئے ۔میں پی پی ایل کے اردو اخبار امروز میں 1956ء سے کام کر رہا تھا ۔ انہوں نے صحافت کی چاہت میں ایک صحت افزا مقام پر پڑھانے کا کام چھوڑ دیا تھا اور پھر انکم ٹیکس کے محکمے کی ملازمت ترک کی تھی ۔ہم نے 1965ء کی جنگ کے بعد ہندوستان کی حالت کا اندازہ کرنے کا سوچا اور حضرت امیر خسرو ؒ کے عرس پر جانے والوں کے گروپ میں شامل ہو گئے ۔نیڈوز ہوٹل کے لان میں ہم زائرین کی قطار میں ویزے کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ہم سے آگے میم شین دکھا ئی دیئے۔ہم نے انہیں سلام کیا اور سب صحافیوں نے فیصلہ کیا کہ پوشیدہ طور پر دلی کا سفر اختیار کیا جائے گا ۔ہمارا خیال تھا کہ بھارت نے زائرین کو اندر آنے کی اجازت دی‘ اخبار نویسوں کو نہیں مگر جونہی ہم ہندوستانی کیمپ آفس میں داخل ہوئے‘ ویزا افسر نے ایک مسکراہٹ سے ہمارا استقبا ل کیا ۔ اس نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ کچھ پاکستانی صحافی ہندوستان جا رہے ہیں ۔ہمیں احساس ہوا کہ ہمارا راز فاش ہو چکا ہے ۔
گو بظاہر وہ ایک خلوت نشین آدمی تھے مگر کمیونٹی کا پورا احساس رکھتے تھے ۔وہ وطن سے آئے ہوئے نا ئیوں‘ ترکھانوں‘ لوہاروں ‘ موچیوں‘ باورچیوں اور دوسرے محنت کشوں سے بالالتزام ملتے تھے اور مقامی امور پر دیہی دانشوروں کے بیانات کے حوالے دیتے تھے ۔ایک بار وہ مجھے آرلنگٹن کے ایک پسماندہ محلے میں لے گئے جہاں چار سیالکوٹی مزدور‘ ایک کمرے کے اپارٹ منٹ میں رہتے تھے ۔خالد ان کے درمیان بہت خوش تھے ۔انہوں نے ہمیں مشروبات پیش کئے اور ہمارے لئے مرغا پکایا ۔میں نے رات کا کھانا ان کے ساتھ کھا یا جیسے میں اپنے ماں کی رسوئی میں بیٹھا کھا رہا ہوں اور وہ مجھے پنکھا جھل رہی ہے ۔ایک بار انہوں نے مجھے وی آنا سے فون کیا اور یہ درد ناک اطلاع دی کہ سید ناظم قطب کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی اہلیہ Betty ٹیکسس سے ان کی میت لے کر واشنگٹن آ رہی ہیں اور مرحوم کی وصیت کے مطابق انہیں اسی شہر میں سپرد خاک کرنا چاہتی ہیں جہاں کئی سال وہ پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ میں نیشنل ایئرپورٹ جاؤں اور ان کی مدد کروں۔ میں نے بڑے بیٹے ادیب کو ساتھ لیا اور آدھی رات کے بعد قطب صاحب کا تابوت وصول کیا ۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد آدھے پاکستان کے نمائندہ کے طور پر خالد حسن آئے ۔بھٹو گورنمنٹ نے انہیں تعلقات عامہ کے مشن پر واشنگٹن بھیجا تھا مگر ان کے پاس ہوٹل میں قیام کا اختیار نامہ نہیں تھا۔ انہوں نے دو راتیں میرے کمرے میں گزاریں ۔ رات ہونے پر وہ میری میٹرس کے باکس سپرنگ پر سوتے تھے اور دن کو کیپیٹل ہل پر اپنے پرانے واقف کاروں سے ملتے تھے ۔
وی آنا سے واشنگٹن منتقل ہونے پر انہوں نے ایک کنڈومینیئم میں دو کمروں کا اپارٹ منٹ خرید لیا ۔وونیتا‘ ابھی اپنے میکے میں تھیں ۔خالد نے ہاؤس وارمنگ پارٹی کی ۔ وہ بہت اچھے کُک تھے ۔کھانے کے بعد کچھ خواتین نے برتن صاف کرنے میں ہاتھ بٹانا چاہا تو انہوں نے روک دیا ۔وہ اپنے تمام کام خود کرتے تھے اور ہر کام شائستگی اور نفاست سے مکمل کرتے تھے۔ ایک بار میں نے انہیں اپنی قمیضیں استری کرتے دیکھا ۔وہ سُر میں تھے ۔نیم کلاسیکی سنگیت کے دلدادہ تھے اور ان کے پاس ماسٹر مدن سے لے کر نور جہان تک سنگیت کا پیش بہا ذخیرہ تھا جو ان کے کاغذات اور کتابوں کے ساتھ مظفر آباد گیا اور خورشید مرحوم کی یاد میں قائم ہونے والی لائبریری کی زینت بنا ۔
بیماری کے دنوں میں انہیں روزانہ وی آنا‘ ورجینیا سے میری لینڈ کے ڈاکٹروں کے دفاتر تک لے جانا میرے ذمے تھا۔ واپسی پر ہم سپرنگ فیلڈ میں ایک ہندو کے ریستوران پر ویجی (سبزیوں پر مشتمل) کھا نا کھاتے تھے ۔کینسر نے انہیں گوشت سے بیزار کر دیا تھا ۔ سفر کے دوران وہ کم از کم ایک بار سفیر حسین حقانی کی کال لیتے تھے جو ان کے ذاتی دوست تھے ۔ جب وہ ان سے حسین بھائی کہہ کر بات کرتے تھے تو مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ فون کس کا ہے ۔ایک دن میں نے انہیں حقانی صاحب سے کہتے سنا کہ ان کا جی بھُجیا کی طرح کی کوئی شے کھانا چاہتا ہے ۔بیگم حقانی‘ فرح ناز اصفہانی ان دنوں اسلام آباد سے آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی نگرانی میں خالد کی پسند کے کھانے بنوائے اور ان کے گھر بھجوائے ۔ایک دن ان کا سٹریس ٹیسٹ تھا اور میں کسی وجہ سے انہیں لے کر میری لینڈ جانے سے قاصر تھا ۔انہوں نے سفیر حقانی کو فون کیا اور ٹرانسپورٹ کا انتظام ہو گیا ۔بعد ازاں خالد نے مجھے بتایا کہ کلینک میں انہیں حد سے زیادہ انتظار کرنا پڑا اور انہیں زیادہ پریشانی اس بات کی تھی کہ ایک سر کاری ڈرا ئیور ان کے ساتھ ہے ۔
صحافی‘ ڈیڈ لائن کی اہمیت سے با خبر ہیں ۔غیر صحافی زیادہ پرواہ نہیں کرتے ۔میں فلوریڈا میں خالد کے ایک گہرے دوست کو جانتا ہوں جو گپ شپ کے لئے روزانہ انہیں فون کرتا تھا ۔ دن کا ایک بجنے کو تھا اور خالدحسن لاہور میں اپنے اخبار کو خبریں بھجوانے میں مصروف تھے کہ ان کے دوست کا فون آیا ۔وہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا چاہتا تھا اور خالد اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ دوست نے وقت کی نزاکت کو سمجھنے سے انکار کیا تو خالد نے اسے ڈانٹ دیا اور پھر باقی عمر اس سے بات نہیں کی ۔ جس دن میں نے خالد کو بے تحاشا کھانستے دیکھا انہوں نے بتا یا کہ وہ ایک پاکستانی ڈاکٹر کے دفتر میں جاتے رہے ہیں اور وہ بھی ان کا علاج کرنے کی بجائے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا ضروری خیال کرتا تھا ۔پیشے میں اپنی سنیارٹی کے باوصف‘ وہ اخبار نویسی پوری دیانتداری اور ذمہ داری سے کرتے تھے ۔ کام کے دنوں میں وہ اپنی ڈاٹسن وی آنا سب وے پر پارک کرتے تھے اور ٹرین لے کر واشنگٹن ڈی سی پہنچتے تھے‘ کسی بڑی شخصیت سے ملنے یا کسی تھنک ٹینک کا سیمینار سننے کے لئے ۔
جس روز خالد حسن دنیا سے رخصت ہو رہے تھے‘ سفیر حقانی نے نیو یارک سے فو ن کیا اور تادیر میرے کندھے پر سر رکھ کر سسکیاں لیتے رہے ۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ صحافت میں تھے اور اسی زمانے سے خالد کے دوست تھے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ واشنگٹن کے جنگل میں ایک پختہ کار حامی سے محروم ہو رہا ہوں ۔ خالد ایک اصیل صحافی تھے جو انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ایسا ہی خراج تحسین بعد میں واشنگٹن کے تھنک ٹینکوں نے ایک میموریل میٹنگ میں ادا کیا جس میں کہا جا رہا تھا کہ وہ اس شیر کی طرح تھے جو لہر کی مخالف سمت تیرتا ہے ۔انہی دنوں ایک عراقی صحافی نے بغداد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران صدر بُش پر جوتا پھینکا تھا اور دنیائے اسلام کے جذباتی لوگوں سے داد وصول کی تھی مگر خالد حسن نے لکھا تھا ۔ منتظر زیدی‘ تم نے ہم صحافیوں کا کام دشوار تر کر دیا ہے ؟
خالد حسن نے انگریزی زبان میں تقریباً چالیس کتابیں لکھیں‘ ان کے ترجمے کئے یا ان کی تدوین کی۔تفصیل کے لئے دیکھیے ان کی ویب سا ئٹ www.khalidhasan.netبا ایں ہمہ وہ اردو ادب کے شیفتہ تھے۔ فیض احمد فیض‘ احمد فراز‘ احمد مشتاق اور دوسرے جدید شاعروں کے سینکڑوں اشعار بر محل پڑھتے تھے ۔وہ اردو کی کتابیں اور رسالے خریدتے یا تحفتاً وصول کرتے تھے اور پڑھنے کے بعد بیشتر میرے حوالے کر دیتے تھے ۔ان میں سے کچھ کتابیں ایسی ہیں جو مصنفین نے ان کے نام معنون کی ہیں۔ آخری فون کال میری موجودگی میں انہوں نے اپنے گھر کے نمبر سے کینیڈا کے اردو کے استاد اور خودنوشتوں اور سوانح عمریوں کے بہت بڑے نقاد پروفیسر پرویز پروازی کے نام کی‘ وہ ان سے پوچھنا چاہتے تھے یہ شعر کس کا ہے ؎ 
منہ پہ رکھ دامن گُل روئیں گے مرغان چمن 
ہر روش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں