"ANC" (space) message & send to 7575

پاناما فیصلہ اورلوٹوں کی عید

جہاں ایک طرف عدالت عظمیٰ میں 'پاناما گیٹ‘ جس کا تعلق وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کی لندن کے مہنگے تر ین علاقے میں واقع پراپر ٹی کے منی ٹریل کا فیصلہ محفو ظ پڑا ہے وہاں ملک میں سیا ست کا بازار گرم ہو رہا ہے، غا لباً اس کی وجہ میاں نواز شریف کی اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بے یقینی ہے ۔ سپر یم کو رٹ میں میاں صاحب کے وکلا کی قلا بازیوں اور ان کی پر اپرٹی کی فنڈ نگ کے با رے میں متضا د دعوؤں کی روشنی میں عام طور پر قانونی ما ہر ین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں نہیں آ ئے گا اورانھیں کسی نہ کسی تعزیر ی حکم کو سننے کے لیے تیا ر رہنا چاہیے ۔ماہر قانون چودھری اعتزاز احسن جوگاہے گاہے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ میاں نوازشر یف ہمیشہ سے ہی عدلیہ کے لاڈے رہے ہیں ،شواہد کی روشنی میں ان کی را ئے بھی یہی ہے کہ اس مر تبہ وہ بچ نہیں سکتے ۔ ایک زما نے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ شر یف فیملی جرنیلوں کی ہمیشہ منظو ر نظر رہی ہے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ جنر ل پرویز مشرف نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کی بلکہ خو ب ٹھکا ئی کر نے کی بھی کوشش کی ۔لہٰذا موجودہ تناظر میں یہ تصور کر لینا کہ فاضل جج صاحبان وزیر اعظم کی جیب میں ہیں درست نہیں ہو گا۔سپر یم کو رٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے صاحبزادے علی طفر جو خو دبھی ایک منجھے ہو ئے وکیل ہیں ،کہتے ہیں کہ سپر یم کو رٹ ایک کمیشن بنا کر جان چھڑا لے گی لیکن یہ کمیشن بھی مقررہ مد ت میں فیصلہ میاں صاحب کے حق میں نہیں دے پا ئے گا ۔گو یا کہ اکثر قانونی ما ہر ین کے مطابق میاںصا حب کب تک خیر منا ئیں گے ۔اسی بنا پر کچھ سیاستدانوں اور میڈ یا میں ان کی را ئے سے متفق تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ عام انتخا بات شاید رواں سال میں ہی ہو جا ئیں ویسے آئینی مد ت کے مطابق تو اگلے سال ہو نے ہی ہیں۔ تا ہم وطن عزیز میں نہ جا نے کیوں یہ تا ثر گھر کر گیا ہے کہ میاں نواز شر یف کی ذا تی طور پر وزارت عظمیٰ سے چھٹی ہو نے سے مسلم لیگ (ن) کا قلعہ دھڑ ام سے گر جا ئے گا۔ حقیقتاً آ ئینی اور قانونی طور پر ایسا نہیں ہے ۔
وزیر اعلیٰ میاں شہبازشریف کانام 'پاناما لیکس ‘ میں کہیں نہیں آیا اور وہ دن رات منصوبوں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں ، انہی کے مطابق تر قیا تی منصوبوں کے حوالے سے رواں سال اہم ہے ۔ جہاں تک قومی اسمبلی کا تعلق ہے میاں نواز شر یف کو وہاں واضح برتر ی حا صل ہے اور ان کو خطر ہ ہو نے کے باوجو د ان کی پارٹی کی حکومت کے لیے کو ئی خطرہ نظر نہیں آ تا ۔زیا دہ سے زیا دہ اگر نواز شر یف کو ہٹنا بھی پڑتا ہے تو قومی اسمبلی کا کو ئی بھی رکن ان کی مرضی سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھا ل سکتا ہے۔ اس حوالے سے ما رکیٹ میں کئی نام وقتاًفوقتاً چلتے رہتے ہیں ۔ میاں صاحب یہ راستہ بھی اختیا ر کر سکتے ہیں کہ وہ کسی رکن قومی اسمبلی کو عبو ر ی طور پروزیر اعظم بنو الیں اور اس دوران جسے چاہیں اسے ضمنی انتخا ب لڑواکر بعد ازاں وزیرا عظم بنا دیں ۔ اس حوالے سے میاں شہبازشر یف اورسینیٹر اسحق ڈار کے بھی نام لیے جاتے ہیں لیکن غا لبا ً نوازشر یف اس مرحلے پر ایسا نہیں کر یں گے ۔اس طر ح میاں صاحب کی اپنی پارٹی پر عملی طور پر گرفت اتنی ہی مضبوط رہے گی جتنی اب ہے لیکن اس کے با وجو د انتخابات کی تیا ریاں ہو رہی ہیں۔ 
پیپلزپا رٹی کے شر یک چیئر مین آصف علی زرداری جو کبھی تو یہ تا ثر دیتے ہیں کہ انھوں نے بلا ول بھٹو زرداری کو بطور سیا سی جانشین تمام اختیا رات سونپ دیئے ہیں اور کبھی خو د بہت فعال ہو جا تے ہیں۔آ ج کل اپنے گڑ ھ صوبہ سند ھ میں پا رٹی میں لوگوں کی شمو لیت کی بھر پو رمہم چلا رہے ہیں ۔حا ل ہی میں نبیل گبول جو بڑ ے طمطراق سے پیپلز پا رٹی چھو ڑ کر گئے تھے اور فرما تے تھے کہ پا رٹی ذوالفقا ر علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی راہ سے ہٹ گئی ہے اب 'صراط مستقیم ‘ پر واپس آ گئی ہے ۔یہی حال امتیاز شیخ کا ہے جو قر یباً سب ہی پا رٹیوں کا کئی مر تبہ دورہ کر چکے ہیں ۔اب واپس پیپلز پا رٹی میںآ گئے ہیں ۔نادر لغا ری بھی براستہ مسلم لیگ (ق) تحر یک انصاف میں شامل ہو کر پیپلزپا رٹی میں پہنچ گئے ہیں ۔لیکن سب سے دلچسپ شمولیت عرفان اللہ مروت کی ہے۔وہ سابق صدر غلام اسحق خان کے داما د ہیں ۔مو صوف پیپلزپا رٹی کے شدید مخالف جام صادق علی کی کا بینہ میںبھی شامل تھے، اب وہ مسلم لیگ (ن) سے پرواز کر کے زرداری صاحب کے پاس پہنچ گئے ہیں ۔ ان پر'وینا حیا ت ریپ ‘کیس میں ملو ث افراد کی پشت پنا ہی کر نے کا الزام بھی لگا تھا ۔اس تنا ظر میں بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیوں بختا ور اور آصفہ کے یہ ٹو یٹس کہ عرفان مروت جیسے لو گوں کو پیپلز پا رٹی میں نہیں بلکہ جیل میںہو نا چاہیے، خا صے چو نکا دینے والے ہیں ۔ پیپلز پا رٹی میں جمہو ریت ہو یا نہ ہو لیکن مروت کے معاملے پر اس طر ح ٹو یٹر پر پیغام دینا اس امر کی نشاندہی کر تا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی اولا د معاملا ت کے بارے میں دوٹو ک را ئے رکھتی اور اس کا اظہا ر کر نے سے بھی نہیں چو کتی ۔ یقینا آ صف زرداری اپنے بچوں کو سمجھا بجھا کر را ضی کر لیں گے لیکن دوسری طرف عرفان اللہ مروت کو بعد از خرابی بسیار یہ وضاحت کرتے ہی بنی کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے، انہوں نے تو صرف زرداری صاحب سے ملاقات کی تھی ۔ان کی اس سادگی پر کون یقین کرے گا؟ہماری سب سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا محض' الیکٹ ایبل‘ لو ٹوں کو ان کا ما ضی کا کردار نظر انداز کر کے انھیں الیکشن سے پہلے شامل کر نا پسند یدہ عمل ہے؟ اس سے عوام مجمو عی طور پر سیا ستدانوں کے بارے میں کو ئی اچھا تا ثر قا ئم نہیں کرتے ۔ حال ہی میں فیصل صالح حیات بھی پیپلز پا رٹی میں دوبارہ شامل ہو چکے ہیں حالا نکہ فیصل صالح حیات وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مشرف دور کے ڈی جی رینجرز میجر جنر ل حسن مہدی سے مل اور ان کے گھر بیٹھ کر پیپلز پا رٹی کو تو ڑا، پیٹریاٹس بنائی اور اس طر ح پا رٹی کو گہرا گھا ؤ لگا یا ۔ اس حمام میں قر یباً سب جما عتیں ننگی ہیں ۔ تبد یلی کے پیامبر عمران خان نے بھی ایسے ہی لوگوں کا اپنے گرد جمگھٹا لگا رکھا ہے اور حکمران جماعت میں تو پی ایم ایل کیو سے مراجعت کر کے آنے والے لوٹوں کا جمگھٹا ہے۔ایک اندازے کے مطابق وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ (ن)کے پرانے ارکان کے مقابلے میں لوٹوں کی تعداد زیادہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں