"ANC" (space) message & send to 7575

گالی گلوچ کی سیاست!

اکثر کہا جا تا ہے کہ سیا ست اور اخلا قیا ت کا آپس میں کو ئی تعلق نہیںلیکن اکثر معاشروں میں اس کے با وجو د بعض اقدار کو ہر حال میں ملحو ظ خاطررکھاجا تا ہے۔ اگر سیا ستدانوںکومادر پدر آزادی دے دی جا ئے تو جمہو ریت نہیں چل سکتی ۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی مر اد سعید اور مسلم لیگ (ن) کے رکن جا وید لطیف کے درمیان جھگڑا قر یبا ً دھینگا مشتی تک پہنچ گیا تھا،اس حوالے سے سپیکرکی جانب سے غو ث بخش مہر کی سر براہی میں قائم کی گئی تحقیقا تی کمیٹی نے اپنی رپو رٹ دے دی ہے جس میں سفا رش کی گئی ہے کہ مر اد سعید کو دو دن اور جا وید لطیف کو 8دن کے لیے اسمبلی اجلا س میں شر کت سے روک دیا جا ئے ۔کیا یہ سز اکا فی ہے ؟۔ اس سے یقینا مراد سعید کی پارٹی خو ش نہیں ہو گی ۔ حقیقت تویہ ہے کہ دونوں فریق یہی ثابت کرنے کی ہر ممکن سعی کر رہے ہیںکہ اخلا قیا ت اور سیا ست الگ الگ ہیں ۔مر اد سعید دوما ہ قبل قومی اسمبلی میں رونما ہو نے والے واقعہ میں بھی پیش پیش تھے جس میں نو بت دست و گر یبان ہو نے تک پہنچ گئی تھی ۔ تحریک انصاف کے فا ضل رکن اپنی نشستوں کو پھلانگتے ہو ئے وفا قی وزیر شاہد خاقان عبا سی کی طرف بڑ ھے جب وہ شاہ محمو د قر یشی سے با ت کرنے ان کی نشست کی طرف آرہے تھے ۔اس وقت معا ملہ قر یشی صاحب کی بردباری کی بنا پر سنبھل گیا تھا لیکن اس مر تبہ مسلم لیگ (ن) کے جاوید لطیف نے تو حد ہی کر دی ۔ ان کی طر ف سے مر اد سعید کی فیملی کے بارے میں نا زیبا ریما رکس ہر لحاظ سے قابل مذمت ہی گر دانے جا سکتے ہیں ۔ پہلے تو جا وید لطیف سے میڈ یا نے ہمدردی کا اظہا ر کیا لیکن جب سو شل میڈ یا پر ان کے مر اد سعید کی فیملی کے بارے میں انتہا ئی محل نظر ریما رکس سامنے آئے تو ہر طر ف سے مسلم لیگی رکن اسمبلی کی مذمت شروع ہو گئی جا وید لطیف نے معافی تو مانگ لی لیکن بڑ ے نیم دلا نہ انداز میں ۔
مسئلہ محض دو متحا رب سیا سی جما عتوں کے بعض ارکان کے درمیان گالی گلو چ اور دست وگر یبان ہونے تک ہی ہو تا تو یہ سزا شاید کا فی ہو تی لیکن ہمارے ہاں سیا سی محاذ آ را ئی اتنی بڑ ھ چکی ہے کہ اس شدید تنا ؤ کے ما حول میں خدشہ ہے کہ آ ئند ہ عا م انتخابات بھی پر امن نہیں ہونگے۔ لاہو ر میں تحر یک انصا ف کے کنونشن والے ہال کو سیل کرنااور کنونشن کروانے کی صورت میں آ گ لگو انے کی دھمکی دینا اور اس کے جواب میں پی ٹی آ ئی کے ارکان کی طرف سے سڑک کو بلاک کر نا عدم برداشت کے بڑھتے ہو ئے رجحا ن کی عکا سی کرتا ہے ۔پیپلز پارٹی کے سابق ٹکٹ ہولڈر بابر سہیل بٹ کے قتل کا مقدمہ لیگی ایم این اے سمیت آٹھ افراد کیخلاف درج ہوا ہے،ان حالات میں خدشہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کی آگ سب کو لپیٹ میں نہ لے لے۔ 
عمران خان جو قر یبا ً ہر روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں روز اول سے ہی میاں نواز شر یف اور ان کے حواریوں کو چور ،ڈاکو اور ٹھگ قرار دیتے چلے ا ٓ رہے ہیںاورجوں جوں انتخابات قر یب آ رہے ہیں ان کے لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسر ی طرف 'پاناما لیکس ‘کے متو قع فیصلے نے بھی ملک میں ہذ یا نی کیفیت طا ری کر رکھی ہے ۔ ان دونوںملا ؤں کی لڑا ئی میں پا رلیمنٹ کی مر غی حرام ہو تی جا رہی ہے۔ ویسے تو وطن عزیز میں جہاں نام تو پا رلیمانی وفا قی جمہو ریت کا ہے لیکن پا رلیمنٹ کو اس کے ارکان کی طرف سے ثانوی حیثیت ہی دی جا تی ہے ۔میاں نواز شر یف بطور وزیر اعظم شاذ ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ کا رخ کرتے ہیں ۔ ان کے دیکھا دیکھی وفا قی وزرا اور حکمران جما عت کے ارکان بھی بہت کم ہی پارلیمنٹ میں مو جو د ہو تے ہیں ۔ عمران خان اور ان کی پا رٹی کا معا ملہ بھی مختلف نہیں ہے ۔ خان صاحب تو برملا یہ کہتے ہو ئے کہ پا رلیمنٹ تو محض ایک ڈھکو سلہ ہے ، کبھی کبھار ہی قومی اسمبلی میں آ تے ہیں ۔پا رلیمنٹ میں عددی لحا ظ سے تیسر ی بڑ ی سیاسی جما عت کے طور پر پی ٹی آ ئی اگر واقعی اسمبلی کو ایک فر اڈ سمجھتی ہے تو انھیں اخلا قی طور پر اس کی رکنیت سے مستعفی ہو جانا چاہیے ۔
قومی اسمبلی اورسینیٹ میں اکثر کورم کا مسئلہ رہتا ہے کیو نکہ قانون سا زی سے کسی کو دلچسپی ہی نہیں البتہ جب معاملہ ارکان کی مراعا ت اور تنخو اہیں بڑ ھانے کا ہو تو کورم بھر پو ر ہو تا ہے ۔ مو جو د ہ پا رلیمنٹ کا قر یباً چار برس کا ریکا رڈ قانون سازی کے حوالے سے قا بل رشک نہیں ہے، تا ہم پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کا حال قدر ے بہتر ہے لیکن یہاں بھی بعض وزراء اپنے محکموں کی کمیٹیو ںکے اجلاسوں سے غیر حاضر ہو تے ہیں ۔ میاں نواز شر یف کاپا رلیمنٹ میں نہ آ نا ان کے مخصوص میلا ن طبع کے تنا ظر میں حیران کن نہیں ہے ۔شاید ان کی دانست میں ارکان اسمبلی کا کام انھیں منتخب کر نے کے بعد ختم ہو جا تا ہے ۔مغلیہ طرز حکمرانی میں پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ وزیر اعظم کا عہد ہ فٹ نہیں ہو تا۔ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ اور کا بینہ میں اول نمبر تصور کیا جا تا ہے ۔اس لحا ظ سے پا رلیمنٹ میں وزیر اعظم کو حکمران یااپوزیشن جماعت کا کوئی بھی رکن اسمبلی کے فلو ر پر مل سکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ارکان کے تند وتیز جملے برداشت کرنا بھی اصولی طور پر وزیر اعظم کے فرا ئض منصبی میں شامل ہو تا ہے ۔لیکن میاں صاحب تو 'پاناما گیٹ ‘ کے بعد قومی اسمبلی توکیا ہر اس فورم سے کنا رہ کشی کرتے ہیں جہاں انھیں ناگوار سوالات کا جواب دینا پڑ ے یا یہ خد شہ ہوکہ مخا لفا نہ نعر ہ بازی ہو گی ۔ اکثر وزرا بھی اس معاملے میں ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ اس پس منظر میں آزاد الیکٹر انک میڈ یا کے آ نے کے بعد پا رلیمنٹ کو نظر اند از کرنے کے مرض میں تشو یشنا ک حد تک اضا فہ ہو تا جا رہا ہے ۔ مہذ ب اور شا ئستہ پا رلیما نی ڈبیٹ کی جگہ گا لی گلو چ نے لے لی ہے ۔قومی اسمبلی اورسینیٹ کے سیشن کے دوران ہر روز تمام چینلز نے پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے باہر '' اسمبلی‘‘ لگا ئی ہو تی ہے اور ہر اہم رکن پر سوالات کی بو چھا ڑ کر تے ہو ئے خطاب کی دعوت دی جا تی ہے اور یہ سب کچھ لائیوچل رہا ہو تا ہے ۔'پاناما لیکس ‘ کی سپریم کو رٹ میں سما عت کے دوران بھی اس قسم کا منظر سپر یم کو رٹ کی پر شکوہ عمارت کے باہر پیش کیا جا تا تھا ۔ ایک طرف عمران خان ،فواد چودھری،نعیم الحق، مر اد سعید اور علی محمد جیسے ارکان نواز شر یف سمیت حکمران جماعت کے ارکان کو بے نقط سناتے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ( ن) کے میڈیا سیل کی کھلاڑیوں کی ٹیم جس میں طلال چو دھری ،عابد شیر علی اوردانیال عزیز پیش پیش ہو تے تھے مخا لفین کورگیدتے تھے اور ان کوتڑکا لگانے کے لیے خو اجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی وقتا ًفوقتا ً رونق افروزہو تے تھے ۔ شام کو یہی شخصیا ت مختلف چینلز کے پر ائم ٹائم پررونق افروز ہو کر اپنے مخا لفین کے لتے لیتے تھے۔گو یا کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مو جو دہ جمہو ریت پارلیمنٹ کے سہا رے نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے باہر گالی گلو چ کے سہا رے چل رہی ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ لو گ جمہوریت چلانے کے بجا ئے عوام کو محظوظ کرنے پر لگے ہوئے ہیں ۔ جمہو ریت تو کچھ لو کچھ دو ، مذاکرا ت اور رواداری کانام ہے نہ جانے ہمارے سیاستدانوں کو کب ہوش آئے گی ۔ جوں جوں فو جی مداخلت کا خطر ہ کم ہوتا جا رہا ہے اور صدر کے پاس اسمبلی تحلیل کر نے کا اختیا ر نہیں رہا ارکان اپنے فرا ئض منصبی سے رو گردانی کر نے لگے ہیں اور ان کے نز دیک جمہو ریت اپنے اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈ اینٹھنے اور دیگر مر اعات سے مستفید ہو نے کانام ہے ۔
صوبوں بالخصوص پنجاب میں صورتحال مختلف نہیں ہے ۔ وزیر اعلیٰ شہباز شر یف بھی صوبا ئی اسمبلی کا رخ نہیں کرتے اور رانا ثنا ء اللہ اپنی چٹ پٹی باتوں سے میڈ یا کومحظو ظ کرتے رہتے ہیں ۔اس کے مقا بلے میں سندھ اسمبلی خا صی فعا ل ہے وہاں ڈبیٹ بھی ہو تی ہے ، محا ذ آ را ئی بھی ہو تی ہے اور وزیر اعلیٰ سند ھ مراد علی شاہ بھی اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں اور نا ظر ین کو کا رروائی چینلز پر دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے، بہتر ہو گا کہ پا رلیمنٹ کی کا رروائی کوبھی لا ئیو کر دیا جا ئے تا کہ ارکان ایوان میں بیٹھ کر دل کی بھڑاس نکال سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں