یورپی مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل

گزشتہ دو ماہ سے جرمنی کے کئی شہروں میں مسلمانوں کی مخالفت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ PEGIDA( یورپ میں اسلام کے پھیلائو کی مخالفت کرنے والے محب ِ وطن یورپی شہریوں کی تنظیم)کی قیادت میں ان احتجاجی مظاہروں کا آغاز ڈرسڈن سے ہوا تھا ، لیکن اب ان کا دائرہ دیگر شہروں تک بھی پھیل چکا ہے۔ ان مظاہروںکے رد ِعمل میں بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور ان میں شرکاکی تعداد اسلام مخالف مظاہروں کے شرکا سے زیادہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان ڈرسڈن کی آبادی کا صرف اعشاریہ پانچ فیصد ہیں۔ اگرچہLeipzig میں ہونے والے ایک مظاہرے میں پچیس ہزار شرکا شامل تھے لیکن ان کی تعداد میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ اس مسلم مخالف تنظیم کے رہنما کے بارے میں ہونے والا انکشاف تھا کہ وہ نیونازی کے قریب لگتے ہیں۔ اس کا گمان اُس وقت ہوا جب ان کی ایک ایسی تصویر منظر ِعام پر آئی جس میں ان کی مونچھیں اور بالوں کا سٹائل ہٹلر سے مشابہہ تھے۔
بہت سے جرمن مسلمانوں کا تعلق ترک خطے سے ہے اور وہ نہ صرف جرمن زبان بولتے ہیں بلکہ مقامی کلچر سے بھی خود کو ہم آہنگ کرچکے ہیں۔ اُن کی وجہ سے اس ملک میں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا لیکن شام سے ہجرت کرتے ہوئے پناہ کی تلاش میں آنے والے افراد کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بج اُٹھی ۔ یورپ کے افراد مجموعی طور پرمسلمانوں کو اپنے درمیان پاکر بے چینی محسوس کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے مسلمان ممالک، جیسا کہ لبنان، اردن، ترکی اور پاکستان نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔اس وقت لبنان میں رہنے والا ہر چوتھا شخص شام سے آنے والا مہاجر ہے۔
اگرچہ یہ احتجاجی مظاہرے دم توڑرہے ہیں لیکن یورپ میں مسلمانوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ چند دن پہلے کم و بیش تمام برطانوی اخبارات نے پہلے صفحے پر کہانیاں شائع کرتے ہوئے اپنے رہنمائوں کو خبردار کیا کہ گزشتہ دس سال کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں رہنے والے مسلمانوں کی تعدادمیں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔2001ء میں یہ تعداد 1.55 تھی جبکہ 2011ء میں یہ بڑھ کر 2.71 ملین ہو گئی۔ تاہم آبادی کے بڑھتے ہوئے حجم سے بھی زیادہ جو چیز تشویش ناک ہے وہ اس آبادی میں عمر کا تناسب ہے۔ برطانیہ کی مجموعی آبادی میں پندرہ سال سے کم عمر افراد کا تناسب 5:1ہے مگر مسلم آبادی میں یہ تناسب 3:1ہے۔ اسی طرح پینسٹھ سال سے زائد افراد برطانوی معاشرے کا سولہ فیصد ہیں لیکن صرف چار فیصد مسلمانوں کی عمر پینسٹھ سال یا اس سے زائدہے۔ ان اعدادوشمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاںمقیم مسلمان نسبتاً جوان ہیں۔ ان میں سے بہت سے جلدہی بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے ہیں۔ چونکہ مسلمان خاندانوں کا حجم عام برطانوی خاندانوں سے کہیں بڑا ہوتا ہے، اس لیے ماہرین کو خدشہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی مجموعی برطانوی آبادی کی نسبت کہیں تیزی سے بڑھے گی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی آبادی میں موجودہ اصل تعداد سے کہیں بڑھ کے محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 20:1ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ یہ تناسب 4:1ہے۔ اس غلط تاثر کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آبادی میں واضح طور پر دکھائی دینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر مسلمان لڑکیاں اور عورتیں سرکو ڈھانپتی ہیں یا نقاب یا برقع پہنتی ہیںجبکہ مسلمان مرد اپنی طویل داڑھیوں کی بدولت دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
برطانوی معاشرے میں دوسرے مذاہب اور ممالک کے تارکینِ وطن بھی رہتے ہیں لیکن وہ مقامی کلچر میں ضم ہوکر اپنی مذہبی شناخت کو اجاگر نہیں کرتے۔ کم وبیش ہرہفتے سفید فام لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، مبینہ طور پر دہشت گردی کے منصوبے بنانے یا داعش کی صفوں میںشامل ہوکر مشرق ِ وسطیٰ میں جہاد کی غرض سے جانے والے مسلمانوں کے نام سامنے آتے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے برطانوی معاشرے میں مسلمانوں اور ان کے مذہب کے بارے میں منفی تاثر تیزی سے پھیل رہاہے۔ اگرچہ یہاں برداشت اور تحمل کا لیول بہت بلند ہے اور مذہبی منافرت کی ہرممکن حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن اگر مسلمانوں سے نالاں برطانوی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تو مسلمانوں کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ حالیہ دنوں فرانس میں چارلی ہیبڈو ہلاکتوں کی وجہ سے اسلام مخالف دائیں بازو کے فرنٹ کو نیشنل سروے پول میں بلند ریٹنگ مل گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تارکین ِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے دائیں بازو کی پارٹیاں طاقت ور ہوتی جارہی ہیں۔
سویڈن سے لے کر ہالینڈ تک، مسلمانوں کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس آگ پر بوکوحرام، داعش اور طالبان کے وحشت ناک مظالم مزیدتیل گرارہے ہیں۔ اس صورت ِحال کی وجہ سے ایسی خبریں اور مضامین عوام کی توجہ کھینچ رہے ہیں کہ مقامی مسلمان ان انتہا پسند تنظیموں کا آلہِ کار بن کر میزبان ممالک کے لیے پریشانی پیدا کردیں گے۔ اس تشویش کی وجہ سے میزبان معاشروں کا مسلمانوں سے برتائو سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ لبرل سیاست دان بھی ایمی گریشن کے قوانین کو سخت بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے نوجوان مسلمانوں کو ملازمت تلاش کرنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے۔ فرانس کے بعض علاقوں میں مسلمانوں میں بیروزگاری کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ برطانیہ میں بھی صرف بیس فیصد مسلمان کل وقتی ملازمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اٹھارہ فیصد مسلمان خواتین صرف گھر میں رہتی ہیں جبکہ مجموعی طور پر برطانوی خواتین میں سے صرف چھ فیصد ہوم وائف ہیں۔ صرف چوبیس فیصد مسلمان ڈگری لیول تک تعلیم یافتہ ہیں جبکہ یہاں رہنے والے چوالیس فیصد ہندو ڈگری لیول تک تعلیم یافتہ ہیں۔
ہائوسنگ بھی ایک مسئلہ بن کر معاشرے کو تقسیم کررہا ہے۔ بہت کم مسلمانوں کے اپنے گھر ہیں۔ یہاں بھی کچھ جرائم پیشہ افراد کے گروہ زمین کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں نسل پرستی بھی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے مسلمان نوجوان آپس میںمل کر رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو مساجد سے یا آن لائن انتہاپسندی کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ اس کی وجہ سے گروہ کے دیگر نوجوان بھی یہ راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یورپی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی غربت، بے روزگاری اور غربت زدہ علاقوں میں رہنے اور انتہا پسندی میںگہرا تعلق ہے۔ تاہم ان مسائل کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ قانونی طریقے سے پناہ کے متلاشی آتے ہیں لیکن غیر قانونی طریقے سے آنے کے راستے بھی مسدود نہیں۔ ڈیلی ٹیلی گراف کا کہناہے کہ اس کے اٹھاسی فیصد قارئین مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت اس وقت یورپ میںرہنے والے مسلمانوں کے لیے کڑا وقت آرہا ہے۔ ان کا عقیدہ اُنہیں مقامی معاشرے میں پوری طرح ضم ہونے سے روکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی کارروائیوں کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں