دہشت گردحملوں کی منہ زور لہر کے سامنے حکومت کیا کررہی ہے؟ یقینا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کارپتنگ اُڑانے والے اور سرخ پھول پیش کرنے والے لڑکوںکے گرم تعاقب میں ہیں اور اس کی سنجیدگی پرکسی کو شبہ نہیںہوناچاہیے ۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا ہم پر ہنستی ہے، ہمارے کارٹون بنتے ہیں جن میں ہمارے پولیس اہل کاروں کو دل کی تصویر والے سرخ غباروں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچاتے دکھایا جاتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ آپ سوچتے ہوں کہ یہ دہشت گرد ملک میں تباہی اور موت پھیلا رہے ہیں، لیکن خاطر جمع رکھیں، ہمارے جج حضرات اور پولیس اہل کار ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔ اُن کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ ہم سست یا کاہل قوم نہیں، بات یہ ہے کہ ہماری ترجیحات درست نہیں۔ ہمارے نزدیک کسی نوجوان کا کسی لڑکی کو چاکلیٹ یا کوئی کارڈ دینا سفاک دہشت گردوں کی کارروائیوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔ ہم بسنت کے خطرات کو تو اپنی یاد سے کبھی فراموش نہیں ہونے دیتے۔ پنجاب کی انتہائی متحرک حکومتی شخصیت نے افسران کو ٹویٹ پیغام میں خوفناک نتائج سے ڈرایا ہے اگر وہ پتنگ اُڑانے یا فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے میں ناکام رہے تو انہیں سزا کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔
فعالیت اپنی جگہ پر، لیکن ایسا نہیں کہ حکمرانوں کو دہشت گردی کے خطرے کا ادراک نہ ہو۔ ایک حالیہ سکیورٹی میٹنگ کے دوران وزیر ِ اعظم ، نواز شریف کا کہنا تھا۔۔۔''دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا واحد حل بلا امتیاز، فوری اور بے رحم آپریشن ہے‘‘۔ بہت اچھے! ایسالگتا ہے کہ برس ہا برس کی قتل و غارت اور دہشت گردی کودیکھنے کے بعد حکمران اس نتیجے پر پہنچ ہی گئے ہیں کہ اب کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم دیکھنا ہے کہ موصوف گہرے غور وخوض کے بعد جس نتیجے پر پہنچے ہیں، اس کے بعد ان کا عمل کیا ہوتا ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر 2014 ء کے حملے ، جس میں 130 بچے ہلاک ہوگئے تھے ، کے بعد ہمارے حکمرانوں نے رائے عامہ کے دبائو سے لاچار ہوکر نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کیے تھے ۔تاہم آنے والے دنوں میں اس کی فعالیت کا سلسلہ قائم ہونے والی کمیٹیوں اور پھر ان کی ذیلی کمیٹیوں کی صورت پھیلتا چلا گیا، لیکن کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہ آیا۔ ہمارے بعض ٹی وی ٹاک شو بدستور منفی پیغام پھیلاتے رہے ، ہمارے سکولوں اور کالجوں کا نصاب ابھی تک غیر ملکی اقوام سے نفرت کرنا سکھاتا ہے ۔
اگرچہ فوج نے فاٹااور کراچی میں انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈائون کیا ہے لیکن پنجاب تاحال ایک ''نوگو ایریا‘‘ ہے ۔ جب وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار ایک انتہا پسند گروہ کو الزامات سے مبراقرار دیتے ہیں تو ان کی ہمدردیوں کے زاویے کی بابت کسی کو غلط فہمی نہیں رہتی ۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ کوئٹہ دھماکے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ کے بعد بھی یہ صاحب وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ الفاظ و اقوال کے حوالے سے حکمرانوں کے بعض حلقے انتہا پسندوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے 1999 ء میں پندرہویں ترمیم کے ذریعے ملک میں شریعت نافذ کرنے اور خود کو امیر المومنین قرار دینے کی کوشش کی تھی، تو ہمارے پاس اُن کی بنیادی سوچ سے خائف رہنے کی وجہ ہے۔ اس کے بعد ہم نے اپنی آنکھوں سے
دیکھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے میں تامل سے کام لیتے رہے ہیں۔ جہاں ایک قوم کے رہنما کے طور پر اُنہیں پورے قدسے کھڑے ہونے کی ضرورت تھی، وہ لچک دکھاتے رہے ۔ اگرذاتی معاملات کو نظر انداز کردیں تو بھی اُن کے طرز ِعمل سے سیاسی مفادپرستی کی جھلک ملتی تھی کیونکہ وہ انتہائی دائیں بازو والے عناصر کی حمایت چاہتے ہیں۔ اس تاثر کو تقویت رانا ثنا اﷲ کو وزارت کا قلم دان عطا کرنے سے بھی ملتی ہے ۔ وہ اکثر ایسے انتہا پسند رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کرتے پائے جاتے رہے ہیںجو پرتشدد سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں۔ جب پنجاب حکومت رینجرز کو جنوبی پنجاب میں موجود جہادی سانپوں کاسرکچلنے کی اجازت نہیں دے گی تو پھر جو کچھ لاہور میں ہوا ، اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔
جہاں تک شریف برادران کا تعلق ہے تو وہ اپنی انتخابی کامیابی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ وہ عمران خان کی مقبولیت سے خائف تھے ، چنانچہ اُنہیں ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلق رکھنے والے انتہا پسند رہنمائوں کی حمایت کی ضرورت پڑی۔ جب وزیر ِاعلیٰ پنجاب نے پتنگ بازی پر پابندی لگائی تو اُن کے پیش ِ نظر اس کی وجہ سے ہونے والا انسانی جانوں کا ضیاع نہیں تھا بلکہ وہ بسنت تہوار کے خلاف مشتعل طبقے کو رام کرنا چاہتے تھے ۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ہندوتہوار ہے لیکن حقیقت یہ کہ موسم ِبہار کی آمد پر پنجاب میںہندو، مسلمان اور سکھ، سبھی یہ تہوار مناتے تھے ۔ تاہم کسی قسم کی بھی تفریق دینی طبقے کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہے ۔ جس طرح افغانستان طالبان نے اپنی حکومت میں موسیقی، کھیل کود اور پتنگ بازی پر پابندی لگادی تھی ، اسی طرح ہمارے بنیادپرستوں کو بھی ہر قسم کے رنگ اور روشنی سے الرجی ہے ۔ ہمار ے حکمران اس طبقے کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ پتنگ بازی جانی نقصان کا باعث بنتی اور لوگ زخمی بھی ہوجاتے ہیں، لیکن دھاتی تار یا شیشہ لگی ڈور کا استعمال اور بسنت کے موقع پر ہونے والی فائرنگ حکومت ِ پنجاب کی ناکامی ہے ۔ اسی طرح بعض سیاست دانوں کی تقریبات پر کی جانے والی ہوائی فائرنگ سے بھی ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ میں بسنت کے تہوار کی بہت سی خوشگوار یادیں رکھتا ہوںجب اپنے دوستوں کے ساتھ چھتوں پر کھڑے ہوکر اشیائے خورونوش کا اہتمام کرتے ہوئے پتنگ بازی کرتے اور لاہور کی رنگین فضا ''بوکاٹا‘‘ کے نعروںسے گونج رہی ہوتی۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے پوتوں نے پنجاب کے یہ رنگ نہیں دیکھے ۔