شمالی اور جنوبی کوریا کی کہانی

شمالی اور جنوبی کوریا دومختلف سیاروں پر آباددکھائی دیتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں خوشحالی اور جمہوریت کی فضا،جبکہ شمالی کوریا میں غربت اور آمریت کے گہرے سائے ہیں ۔ شمالی کوریا کے آمر کم جونگ آن(Kim Jong-Un) کے سوتیلے بھائی کم جونگ نام(Kim Jong-Nam)کی حالیہ دنوں ہونے والی ہلاکت نے دونوں ریاستوں کے مابین یہ فرق ایک بار پھر اجاگر دیا۔ دونوں ریاستوں نے کم و بیش ساٹھ سال قبل اپنی راہیں جدا کی تھیں۔ اُس وقت سے لے کر اب تک شمالی کوریا میں جبر اور گھٹن کے علاوہ بھوک اور غربت کا خطرہ ایک آسیب کی طرح شہریوں کے تعاقب میں رہتا ہے ۔ تاہم اس دوران ملک عالمی پابندیوں کے باوجودہولناک ایٹمی ہتھیار اور میزائل سازی کے پروگرام کو آگے بڑھاتا رہا ہے ۔ حتیٰ کہ چین، جو دنیا میں اس کا واحد دوست ہے، بھی اپنے اس شرمناک حد تک ناقابل ِ اعتبار اتحادی کے رویے سے تنگ آچکا ہے ۔ حالیہ دنوں منظر ِعام پر آنے والے کچھ رپورٹس کے مطابق اقوام ِ متحدہ کی پابندیوں کی پاسداری کرتے ہوئے چین نے شمالی کوریا سے مزید کوئلہ خریدنے سے انکار کردیا ہے ۔ 
یورپی یونین کے ایک کنسلٹنٹ کے طور پر گزشتہ چند برسوں کے دوران شمالی کوریا کا متعدد بار دورہ کرنے والے ایک دوست نے مجھے اس کمیونسٹ ملک میں جاری عجیب و غریب پالیسیوں اور خوف سے کی فضا سے آگاہ کیا۔ یقینا اُنہیں سرکاری محافظ کی موجودگی کے علاوہ کسی سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی ، لیکن وہ دیہاتی علاقوں میں غربت اور فوجی سرگرمیاں کا مارچ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے ۔ شمالی کوریا سے فرار ہوکر دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے والے افراد بیان کرتے ہیں کہ کس طرح وہاں خفیہ پولیس اور عقوبت خانوں کا خوف عوام کا تعاقب کرتا ہے ۔ ان عقوبت خانوں میں سرکاری موقف سے اختلاف کے شبے میں ہزاروں افراد کو قید رکھا جاتا ہے ۔
تاہم عوام کو جتنی بھی مشکلات کا سامنا ہے ، وہ اپنی جگہ پر ، لیکن اس کے حکمران کم جونگ آن کی پر تعیش زندگی میں کوئی تعطل نہیں۔ وہ مہنگی غیر ملکی مصنوعات تک رسائی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کے کاشت کاری کے طریقے پتھر کے دور کی یاد دلاتے ہیں، لیکن کمیونسٹ پارٹی کی اشرافیہ کی زندگی عوامی مصائب سے بہت دور ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری نامور ایٹمی سائنسدان کا شمالی کوریا کے کیے گئے متعدد دوروں کے دوران کافی سواگت کیا جاتا ہوگا۔ جب شمالی کوریا کا ٹی وی کبھی کبھار جنوبی کوریا کی کوریج دکھاتا ہے تو اس کی بلندوبالا عمارتوں اور جدید زندگی کے خدوخال کو تاریک کردیا جاتا ہے تاکہ شہری اپنے ہمسایوں کی ترقی اور خوشحالی کو نہ دیکھ سکیں۔ چونکہ شمالی کوریا کے عوام کو انٹرنیٹ، ریڈیو اور غیر ملکی ٹی وی کی نشریات تک رسائی نہیں، اس لیے وہ نہیں جانتے کہ ان کا فی کس جی ڈی پی صرف 583ڈالر ہے جبکہ جنوبی کوریا کا جی ڈی پی 34300ڈالر ہے ۔ 
شمالی کوریا میں عوام کی مسلسل برین واشنگ کی جاتی ہے کہ اُن کی ریاست کی سلامتی کو امریکہ کی طرف سے شدید خطرہ لاحق ہے ، چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قربانی ( جو وہ غربت اور افلاس کی صورت دے رہے ہیں) فوجی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی کوریا میں طاقتور امریکی فوج کی بھاری موجودگی کے باوجود شمالی کوریااپنے جنوبی ہمسائے کو جوہری خطرے سے دوچار رکھتا ہے ۔ چونکہ شمالی کوریا کے بھاری فوجی موجودگی رکھنے والے بارڈر سے سیئول کا فاصلہ صرف ساٹھ کلومیٹر ہے ، اس لیے بیرونی طاقتیں اس خطرناک ملک پر دبائو ڈال اسے ایٹمی ہتھیاراورمیزائل سازی کے خطرناک عزائم کا راستہ روکنے سے قاصر ہیں۔ ملک پر معاشی پابندیوں کے شدید دبائو کے باوجود شمالی کوریا کی باقاعدہ فوج اپنی چھتری تلے ساٹھ لاکھ پیراملٹری دستے (جو ملک کی آبادی کا پچیس فیصد ہیں) رکھتی ہے ۔ اگرچہ اب اس کی طیارہ شکن توپیں اور میزائل پرانے ہوچکے ہیں لیکن ان کی بھاری تعداد بہرحال ایک ڈیٹرنس ہے۔ ملک میں غربت کے باوجود اس کے حکمران دفاع پر سالانہ چھ بلین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ 
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو وہ اپنے اس خبطی اتحادی کو اس کے خطرناک عزائم سے باز رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔ دراصل چین کو خطرہ ہے کہ اگر شمالی کوریا کی صورت ِحال دھماکہ خیز ہوگئی تو اس کی سرحدوں کی طرف مہاجرین کا سیلاب بڑھنے لگے گا۔ اس کے علاوہ چین بہتر سمجھتا ہے کہ اس کے اور جنوبی کوریا، جہاں امریکی فوج موجود ہے، کے درمیان کوئی بفر زون (طاقتور فوج رکھنے والا شمالی کوریا) موجود رہے ۔ تاہم اب کم جونگ نام ، جس کے خاندان کو چین کا تحفظ حاصل تھا، کے قتل سے ایسا لگتا ہے کہ شمالی کوریا نے چین کی نظروں میں سرخ لکیر عبور کرلی ہے ۔ اگرچہ کوالالمپورائیرپورٹ پر ''وی ایکس اعصابی زہر‘‘ سے ہونے والی اُن کی ہلاکت کی وجوہ تاحال نامعلوم ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شمالی کوریا کے ایجنٹ اُن کی جان لینے کی متعدد کوششیں کرچکے تھے ۔ فی الحال سامنے آنے والی تھیوری یہ ہے کہ شمالی کوریا کے آمر حکمران کو خدشہ تھا کہ چین اُن کے سوتیلے بھائی کو اُن کی جگہ شمالی کوریا کی قیادت سونپنے کی پلاننگ کررہا ہے ۔ چنانچہ اپنے بچائو کے لیے اپنے بھائی کی جان لینا ضروری سمجھا گیا۔ 
اس ہلاکت کی وجہ سے شمالی کوریا اور ملائیشیا کے تعلقات میںبھی کشیدگی آگئی ہے کیونکہ ملائیشیا اپنی سرزمین پر ہونے والی اس ہلاکت کی وجہ سے غصے میں ہے ۔ فی الحال شمالی کوریا اس ہلاکت کے الزام کی تردید کرتا ہے ۔ شاید قاتل کا خیال تھا کہ وی 
ایکس اعصابی کیمیکل کے استعمال کا پتہ بھی نہیں چلے گا اور کم جونگ نام کی ہلاکت کا سبب ہارٹ اٹیک سمجھا جائے گا لیکن سی سی ٹی وی کیمروں نے دوعورتوں کو وی ایکس کا استعمال کرتے دیکھ لیا جبکہ ان کا شمالی کوریا کا محافظ ایک محفوظ فاصلے پر تھا اور اُس نے اس کے فوراً بعد پوئنگ یانگ کی فلائٹ پکڑ لی ۔شمالی کوریا کے موجودہ حکمران ، کم آن کا تعلق کم خاندان کی تیسری نسل سے ہے ۔ ہلاک ہونے والے بھائی، کم جونگ نام اُس وقت اپنے باپ کی حمایت سے محروم ہوگئے جب اُنھوںنے ایک جعلی پاسپورٹ پر جاپان داخل ہونے کی کوشش کی ۔ اس وقت سے لے کر اب تک اُنہیں اپنے سوتیلے بھائی کے ہاتھوں ہلاکت کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ چنانچہ اُنھوںنے چین سے جان کا تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی ۔ تاہم قتل کی متعدد کوششوںسے بچ نکلنے کے بعد اُن کا ملائیشیا کا دورہ مہلک ثابت ہوا۔ خفیہ پروگرام اور جابرانہ انداز ِ حکمرانی رکھنے والا شمالی کوریا اکیسویں صدی میں ایک اجنبی ریاست ہے ۔اس کی نیم اشتراکی پالیسیوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے دھانے پر پہنچا دیا ہے، لیکن یہ اپنے خطرناک راستے سے پیچھے ہٹتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے حکمرانوں کی طرف سے عوام کو آہنی گرفت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اختیارات کا ارتکاز ختم نہیں کرنا چاہتے ، جبکہ شہریوں کی حیثیت قیدیوں سے مختلف نہیں ہے ۔ وہاں حکم عدولی کی سزا موت ہے۔ چنانچہ آمریت رکھنے والے دیگر ریاستوں میں شمالی کوریا سب سے بدترین مثال پیش کرتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں