جرمن انتخابات میں ترکی کا کردار

جرمن چانسلر اینجلا مرکل کو موجودہ سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر منتخب ہونے کے لیے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ مخالفین کی طرف سے لگائے گئے الزامات اُن کے تعاقب میں ہیں کہ اُنھوں نے اپنے ملک کے دروازے مہاجرین، جن میں سے زیادہ تر شام سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں، کے لیے کھول دیے۔ اس وقت مہاجرین کی ایک تازہ لہر، جسے فی الحال ترکی نے روک رکھا ہے، جرمن انتخابی ترازو کو برہم کردے گی۔ اگر ترک صدر طیب اردوان نے جیسا کہ وہ دھمکی دے رہے ہیں، پناہ گزینوں کے سیلاب کے آگے سے رکاوٹیں ہٹالیں۔ کئی ایک واقعات جرمنی اور ترکی کے تعلقات کو انتہائی پست سطح پر لے جاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ترک صدر مزید پناہ گزینوں کو جرمنی کی طرف دھکیل کر مس مرکل کے لیے مشکلات بڑھا سکتے ہیں۔ 
فی الحال تائو دلانے والی چیز کئی ایک جرمن شہروں کی طرف سے ترک صدر طیب اردوان اور اُن کے وزرا کو سیاسی جلسے کرنے کی اجازت دینے سے انکار ہے۔ در اصل ترک صدر اگلے ماہ ہونے والے ریفرنڈم کے لیے حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ ریفرنڈم ترکی کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ طیب اردوان ترکی کو ایک صدارتی نظام رکھنے والی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ نظام اُنہیں غیر معمولی اختیارات دے گا۔ گزشتہ سال ناکام فوجی مداخلت کے بعد اپنے مخالفین کو بے رحمی سے کچلتے ہوئے اُنھوںنے تجویز دی تھی کہ ترکی کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام کی طرف موڑ دیا جائے۔ کمزور پارلیمنٹ نے اس کی اجازت دے کر گویا اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔ آج کل جرمنی میں کم و بیش چالیس لاکھ ترک باشندے مقیم ہیں۔ ان میں سے پندرہ لاکھ کے پاس جرمنی اور ترکی کی دوہری شہریت ہے؛ چنانچہ وہ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ طیب اردوان اس وقت مشتعل ہوئے جب اُنہیں بتایا گیا کہ وہ اور اُن کی ''اے کے پارٹی‘‘ جرمن شہروں میں جلسے نہیں کرسکتے۔ وفاقی حکومت کا اصرار ہے کہ یہ قطعی طور پر مقامی اور ریاستی حکومتوں کا فیصلہ ہے، اس میں برلن کا کوئی عمل دخل نہیں۔ تاہم ترک صدر کا خیال ہے کہ جرمنی اُنہیں ریفرنڈم میں فتح حاصل کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ 
جرمنی میں ترکوں کی بھاری تعداد کی موجودگی کا تعلق 1961ء کے واقعات سے ہے جب دیوار ِبرلن تعمیر کی گئی، جس نے مشرقی جرمنی کے شہریوں کو مغربی جرمنی کی فیکٹریوں میں کام کرنے سے روک دیا۔ 30 اکتوبر 1961ء کو جرمنی اور ترکی نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس نے ترکوں کو دو سال کے لیے جرمنی میں''مہمان ورکرز‘‘ کے طور پر داخلے کی اجازت دے دی؛ تاہم جرمن فیکٹری مالکان کے دبائو کی وجہ سے دوسال بعد واپسی کی شرط واپس لے لی گئی کیونکہ اُن کا موقف تھا کہ وہ اس عرصے میں افرادی قوت کو تربیت دے کر ماہر کاریگر بنائیں گے، تب تک وہ واپس چلے جائیں گے تو اُن پر کی گئی سرمایہ کاری ضائع ہوجائے گی۔ اس کے بعد اُن کے سامنے پھر غیر ہنر مند افراد ہوںگے۔ چنانچہ دو سال بعد واپسی کی شرط ختم ہونے سے ترکی سے جرمنی کی طرف آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ 1974ء میں ان کام کرنے والوں کو اپنے اہل خانہ کو بھی جرمنی بلانے کاحق دے دیا گیا۔ اس طرح 1974 ء سے لے کر 1988ء کے درمیان جرمنی میں ترکوں کی تعداد کم وبیش دگنی ہوگئی۔ 
دونوں ریاستوں کے درمیان موجودہ تنائو میں ایک عنصر Deniz Yucel کی حراست ہے جو جرمن نسل کے ترک صحافی ہیں۔ اُن پر دہشت گردوں کے ساتھ روابط رکھنے کے الزامات ہیں۔ ان الزامات کی بنیاد ایک انٹرویو ہے جواُنھوں نے کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ایک کمانڈرکا اپنے جرمن اخبار کے لیے لیا تھا۔ اُس وقت Deniz Yucel کردوںکے خلاف ترک فوج کے موجودہ آپریشن کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ جیل میں اپنے خلاف مقدمے کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے وہ ترکی میں صحافیوں پر کیے جانے والے جبر کی علامت بن چکے ہیں۔ اس وقت ترکی کی جیلوں میں ریکارڈ تعداد میں صحافی قید ہیں۔ درحقیقت دنیا کے کسی اور ملک میں اس وقت اتنے صحافی پابند ِ سلاسل نہیں جتنے ترکی میں ہیں۔ جرمن دفتر ِخارجہ نے اس گرفتاری کی مذمت کی جبکہ مس مرکل نے اسے ''تکلیف دہ حد تک مایوس کن‘‘ قرار دیا۔ 
جس دوران جرمن شہروں میں آباد ترکوں کی تعداد بڑھی، مقامی باشندوں کے ساتھ اُن کے تنائو میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مذہب اور کلچر کا اختلاف نمایاں ہونے لگا، یہاں تک کہ ملازمت تلاش کرنے والے ترکوںکو امتیازی سلوک کا سامناکرنا پڑا۔کچھ قوم پرست گروہوں نے مسلم مخالف بیانیہ آگے بڑھانا شروع کردیا۔ اس بیانیے میں شام، عراق اور افغانستان سے کی جانے والی موجودہ ہجرت کے بعد شدت آتی دکھائی دی۔ تاریخی طور پر جرمنی اور ترکی کے عثمانی حکمرانوں کے درمیان تعلقات بہت اچھے تھے۔ وہ پہلی جنگ ِعظیم میں شکست تک ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔
اس شکست کے نتیجے میں جہاں جرمنی کمزور ہوا، ترک سلطنت بکھرگئی۔ اس سے پہلے، اٹھارویں صدی میں بھی جرمنی اور ترکی اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ جرمن حکمران، فریڈرک اعظم (Frederick the Great) نے 1740ء میں کہا تھا: ''تمام مذاہب اُس وقت تک اچھے ہیں جب تک اُن کے پیروکار ایماندار رہیں، اور اگر ترک اور غیر مسیحی یہاں (جرمنی میں) آکر آباد ہونا چاہتے ہیں تو ہم اُن کے لیے مساجد اور مندر تعمیر کریں گے‘‘۔
افسوس، آج ہم فریڈرک اعظم جتنی رواداری نہیں رکھتے، ہماری دنیا انتہائی رویوں سے لبریز ہے۔ یورپ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتیں مسلمانوں کے خلاف بیانیے کو توانا کر رہی ہیں۔ 2013ء میں قائم ہونے والا ''The Alternative fuer Deutchland‘‘اذان، میناروں اور حجاب پرپابندی کا مطالبہ کرتا ہے۔ Pegida یورپ میں اسلام کے پھیلائوکا سخت مخالف
ہے۔ فرانس میں مسلم مخالف لہرکھل کر سامنے آچکی ہے۔ وہاں مہاجرین کی مخالفت کرنے والی میرن لی پن آنے والے صدارتی انتخابات کی توانا امیدوار کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔ اس پس منظر میں اگر ترک صدر نے اپنی سرحدیں کھول کر مہاجرین کو یورپ کی طرف روانہ کردیا تو اس کا سب سے زیادہ دبائو جرمنی پر پڑے گا۔ اس سے پہلے جرمنی دس لا کھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے ۔ مگر اب یورپی ریاستیں اپنی سرحدوں پر باڑیں لگا رہی ہیں۔ تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر ترکی کے مشرقی علاقوں سے یورپ کا رخ کرنے والے زیادہ تر جرمنی پہنچ پاتے ہیں یا نہیں، اس نے اینجلا مرکل کے لیے ایک سیاسی مسئلہ ضرور پیدا کردیا ہے۔ مسٹر اردوان اس سے واقف ہیں،اس لئے وہ شامی مہاجرین کو ایک تزویراتی اثاثے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر جرمنی، ترکی کو رعایت دیتا ہے تو طیب اردوان اپنی سرحدیں بند کرلیںگے۔ اس وقت جرمنی میں ہونے والے پول سروے بتاتے ہیں کہ مس مرکل کے لیے الیکشن جیتنا اتنا آسان نہ ہوگا جتنا پہلے مواقع پر تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں