میں اکثر سوچتا ہوں کہ پاکستان کے عوام اُس تمام خوفناک مواد کا کس طرح سامنا کرتے ہیں جو ہمہ وقت اُن کے درپیش رہتا ہے۔ وہ ملک کی بنیادیں کمزورکردینے والی بدعنوانی اور نااہلی کے خلاف احتجاج کیوں نہیںکرتے ؟ریاست عوام کو صحت اور تعلیم کی کوئی سہولت فراہم نہیں کرتی۔ 84 فیصد پاکستانیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جبکہ شہریوں کو ہر آن دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے خطرہ لاحق رہتا ہے ۔ زندگی کسی طور پر آسان نہیں لیکن پھر یہ لب بندی کیوں ہے ؟ عام افراد بہتر اور معیاری گورننس کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر کیوں نہیں آتے ؟
میرا خیال ہے کہ اس بے عمل رویے کا تعلق اُس مسئلے سے ہے جس نے بر ِ صغیر پر بہت دیر سے گہری گرفت جما رکھی ہے ۔ یہ نظریہ قسمت کی بالا دستی ہے ۔ ہم بات بات پر قسمت کی لکیر دیکھنے کے عادی ہیں۔ یادرکھیں، دنیا کی دیگر اقوام کے ہاتھ بھی ہماری طرح ہوتے ہیں لیکن وہ ان پر کچھ بھی تلاش نہیں کرتیں، وہ محنت کرتے ہوئے اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ جب کوئی بچہ ہسپتال میں ناقص علاج یاطبی عملے کی غفلت کی وجہ سے مرجاتا ہے تو اس کے والدین ''قدرت کی مرضی ‘‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب یہ جملہ ادا کردیا جاتا ہے تو پھر گلی سڑی طبی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ چنانچہ ڈاکٹر اور نرسیں اپنی کوتاہی اور غفلت دور نہیں کرتیں کیونکہ اس طرح تو پھر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی ۔ دیگر ممالک میں ایسے کیسز کو پیشہ ور کوتاہی تسلیم کیا جاتا ہے اور والدین کے پاس ہسپتال اور ڈاکٹر پر بھاری کیس کرنے کا حق ہوتا ہے ۔
دراصل ہمارے ماحول میں ''قسمت کو یہی منظور تھا‘‘ ہر قسم کی سیاسی، سرکاری اور پالیسی کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا ایک تیر بہدف نسخہ بن چکا ہے ۔ اس کی آڑ میں فرائض سے غفلت برتنا اور سز اسے بچ جانا ہم نے سیکھ لیا ہے ۔ جب غفلت کی کوئی قیمت نہ ادا کرنی پڑے اور نہ ہی سزا کا خطرہ ہو تو پھر فعالیت دکھانے کا سردرد کون برداشت کرے ؟یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پیشہ ور اصلاحات کا عمل پروان نہیں چڑھ سکا۔ جب ہم اپنی تمام بدقسمتی کو آسمانی طاقتوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ انسانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ کتنا آسان ہے کہ ذاتی ذمہ داری کو کسی اور کے سپرد کرکے ہر قسم کی غفلت سے بری الذمہ ہوجائیں۔ جب ایک بھکاری آپ سے پیسے مانگتا ہے کہ اُس کے نصف درجن بچے بھوکے ہیں اور جب آپ اُسے پوچھتے ہیں کہ جب اُس کے مالی وسائل نہ تھے تو اُس نے اپنا کنبہ بڑا کیوں کیا تو وہ جواب دیتا ہے ۔۔۔''جو قدرت کو منظور ‘‘۔ اس پر انسان سوچ میں پڑجاتا ہے ۔
جب سیاست دان دہشت گردحملوں میں زخمی یا معذور ہوجانے والے افراد کی عیادت کے لیے ہسپتالوں کار خ کرتے ہیں تو یہ سوچ اُن کے ہمراہ ہوتی ہے ۔ اس میں ان کا کیا جاتا ہے۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے قسمت پر راضی رہنے کی تلقین کرنا دہشت گردی کی حقیقی وجوہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی نسبت کہیں آسان ہے ۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی اور قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد بھی صورت ِحال اور پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھتے ہیں۔ اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کو خاموشی سے دفنا دیتے ہیں اور یوں ایک اور دن گزرجاتا ہے ۔ چنانچہ جب سب کچھ یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر سکیورٹی ایجنسیوں اور حکومت کو مورد ِ الزام ٹھہرانا زیادتی ہوگی۔ بندہ بشر کیا کرسکتا ہے ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ جذبات پر کنٹرول ، راضی برضا رہنا اور صبر سے کام لینا دکھ درد میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔چنانچہ ان کے بعد وکیل کرنا یا گلی میں احتجاج کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ہم قدرت کے فیصلوں پر صبر کرنے کے عادی ہیں، اس لیے ہم بہتری کا تصور اپنانے اور اس کے لیے جدوجہدکرنے سے عاجز ہیں۔ 1571 ء میں لپانٹو کی جنگ (Battle of Lepanto) میں ترکی کی عثمانی سلطنت کے بحری بیڑے کو ''ہولی لیگ ‘‘ نے شکست دے دی۔ یہ ایک اہم بحری جنگ تھی، اور اس کے نتیجے میں عثمانی سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ اس کا بحیرہ روم میں تسلط اختتام پذیر ہوا۔ جنگ میں شکست کی وجوہ کا جائزہ لینے اور اپنی خامیوں کا تدارک کرنے کی بجائے ترکوں نے اس کی ذمہ داری آسمانی طاقتوں پر ڈال دی۔ چنانچہ ڈوبنے اور تباہ ہونے والے جہازوں کی بحالی کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔
جب گزشتہ نومبر کو گڈانی میں ایک ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی اور اس میں درجنوں مزدور ہلاک اور زخمی ہوگئے ، تواس کی وجہ واضح تھی۔ جہاز کے مالک نے کسی ملک سے توڑنے کے لیے جہاز خریدا لیکن مبینہ طور پر اس میں چھپا کر تیل بھی سمگل کرلیا۔ اس پر ویلڈنگ کا کام کرنے والے اس حقیقت سے بے خبر تھے، چنانچہ کوئی چنگاری اُن کے لیے موت کا فرشتہ ثابت ہوئی ۔ چونکہ اس میں بہت سی ہلاکتیں ہوئی تھیں، اس لیے بہت سے سیاست دان اورافسران جائے حادثہ پر پہنچے ، لیکن آخر میں وہی سننے میں آیا جو پہلے آتا تھا۔ ملوں اور فیکٹریوں میں لالچ اور انسانی غفلت کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیںلیکن ہمارے الفاظ تبدیل ہوتے ہیں اور نہ رویہ ۔ ان کی ادائیگی کے بعد زندگی کے '' معمولات ‘‘ جاری رہتے ہیں۔
قسمت کی بالا دستی کا تصور ہمیشہ سے ہی انسانی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے قصور وار سزا سے بچ جاتے ہیں، چنانچہ بہتری کا تصور تقویت نہیں پاتا۔ یقینا جب اس کی ذمہ داری آسمانی طاقتوں پر ڈال دی جائے تو انسان کو غلط کاری پر کس طرح سز ا سنائی جائے ۔ ہم یہ اہم فرمان بھول چکے ہیں کہ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ چنانچہ جب تک ہم انسانی ذمہ داری کا تعین نہیں کرتے اور مفروضو ں سے جان نہیں چھڑاتے ، یہ مسائل ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے ۔