زیادہ تر ممالک میں بدترین جرم کسی پولیس افسر کو ہلاک یا زخمی کرنا ، یا فرائض کی انجام دہی کے دوران اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا ہوتا ہے ۔ آپ کوئی بھی ہوں، جس سماجی یا سیاسی حیثیت کے مالک ہوں، پولیس والا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آپ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ تاہم پاکستان میں سیاست دانوں، فوجی افسروں ، اور اب وکیلوں کے لیے پولیس افسران کو تھپڑ جڑ دینا یا گالیاں دیناکوئی بات ہی نہیں ۔ دوسری طرف گزشتہ برسوں کے دوران ہزاروںپولیس اہل کار اور افسردہشت گردوں اور مجرموں کے حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اور یہ بات بھی کسی کو یاد نہیں ۔
ایک حالیہ خبر کے مطابق کچھ وکلا نے اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت میں ایک اے ایس آئی، جاوید سلطان کو ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میںبری طرح زدوکوب کیا۔ وکلا کا ''غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش ‘‘ کے سوا مجسٹریٹ نے کمرہ ٔعدالت کے تقدس کے تحفظ کی کوئی کوشش نہ کی ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بپھرے ہوئے وکلا کو لاک اپ میں بند کردیا جاتا ، لیکن تشدد کا سلسلہ عدالت کے احاطے میں جاری رہا۔
واقعات کے مطابق مذکورہ پولیس ا فسر نے گزشتہ رات ایک موٹر سائیکل سوار کو روکااور کاغذات طلب کیے ۔ چونکہ موٹر سائیکل سوار ، عماد اﷲ کے پاس ا س وقت کاغذات نہیں تھے، اس لیے قانون کے مطابق پولیس افسر نے موٹر سائیکل کو بند کردیا۔ تاہم جب اگلی صبح عماد اﷲ نے کاغذات دکھادیے تو موٹر سائیکل اُس کے حوالے کردی گئی ۔ اس معاملے کو یہیں ختم کرنے کی بجائے عماد اﷲ ضلعی عدالت میں گیا اور پولیس افسر کے خلاف درخواست دائر کردی۔ اس کے بعد پھر کیا تھا، مشتعل وکیل اور اس کے ساتھیوں کی نظر جیسے ہی جاوید سلطان پر پڑی، اُنھوں نے اُن پر حملہ کردیا اور مکوں ،تھپڑوں اور لاتوں سے اُن کی دھنائی کرکے رکھ دی۔ ایک چشم دید گواہ کے مطابق۔۔۔''اُنھوںنے جاوید صاحب کو مارنا شروع کردیا۔۔۔۔ وہ میز پر گر گئے ، اور میز کا کنار ا اُن کے سینے میں زور سے لگا۔۔۔ایسا لگا جیسے اُن کا سانس رک گیا ہے ۔‘‘مقامی بار ایسوسی ایشن نے، جیسا کہ توقع تھی، اپنے ممبران کا ساتھ دیااورضلعی عدالت کے وکلا نے ہڑتال کردی۔ تاہم ایک سینئر پولیس افسر نے اس معاملے پر اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کوخط لکھا ہے کہ اے ایس آئی پر تشدد کرنے والے وکلا کا لائسنس منسوخ کیا جائے کیونکہ ان کے اس اقدام سے پولیس فورس کی بے توقیری ہوئی ہے ۔
خیر یہ ہمارے ہاں کوئی انوکھا واقعہ نہیں ۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے ہی واقعات ہماری عدالتوں میں پیش آرہے ہیں۔ 2007 ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلا تحریک کے بعدنہ صرف وکلا برادری نے خود کو قانون، جس کی سربلندی اُن کے پیشے کی روح ِ رواں ہے، سے بالا تر سمجھنا شروع کردیا ہے بلکہ متعد د مواقع پر قانونی دلائل سے دست کش ہوتے ہوئے لاتوں اور مکوں کے آزادنہ استعمال کا بھی ضروری سمجھا ہے ۔ دیدہ دلیری کی انتہا ، کہ وہ مجسٹریٹوں کو دھمکانے ، گواہوں کو ڈرانے اور پولیس افسروں پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے ، محض اس لیے کہ اُنہیںبار ایسوسی ایشنز کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے ۔
دوسری طرف پولیس اہل کار، چاہے معاشرہ اُن کے بارے میں جو بھی تاثر رکھتا ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری پہلی دفاعی لائن ہیں۔اُنھوںخود سے بہت سے بہتر مسلح اور تربیت یافتہ جہادیوں کے ہاتھوں بے پناہ نقصان برداشت کیا ، لیکن ان بے لو ث قربانیوں پر ان کے مشکور ہونے کی بجائے معاشرہ مجموعی طور پر پولیس کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات رکھتا ہے جنہیں چھپانے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جاتی ۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے پولیس اہل کار نااہل اور، ظلم اور بدعنوانی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، اور پھر سینئرعہدوں پر تقرریاں بھی سیاسی وابستگی کی بنیادپر میرٹ کا خون کرتے ہوئے کی جاتی ہیں۔ نچلے درجوں پر بھرتی میں رشوت اور سفارش چلتی ہے ۔
وسائل کی کمی کی فہرست بہت طویل ہے ، لیکن جب ہمیں پیہم انتہا پسندی کے خطرے کا سامنا ہے تو خیال تھا کہ شاید قائم ہونے والی مختلف حکومتیں ان مسائل کا تدارک کریں گی۔ دیگر ممالک جنہیں ایسے ہی، یا اس سے کہیں کم درجے کے خطرے کا سامنا تھا، نے سخت قوانین بنانے کے علاوہ اپنی پولیس کو بھی جدید اور طاقتور بنالیا ۔ دوسری طرف ہم مگر مچھ کے آنسو بہاتے ، مذمت کی رسم سے آگے بڑھتے دکھائی نہیں دیتے ۔ جب بھی حملہ ہوتا ہے تو ہم سکیورٹی سخت کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ اس فعالیت میں چند دن گزر جاتے ہیں، زندگی معمول پر آجاتی ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کی مثال لے لیں۔جب فوج کے دبائو پر سیاست دانوں نے سرجوڑ کرایک کثیر جہتی پلان پر اتفاق کرلیا توپتہ چلا کہ نواز حکومت اس پر عمل کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی۔کسی اور ملک میں ایسی کارکردگی دکھانے والے وزیر ِد اخلہ کو کب کا برطرف کرکے گھر بھیج دیا گیا ہوتا لیکن یہاں چوہدری نثار علی خان دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے قوم کی توجہ سوشل میڈیا پر پڑے ہوئے توہین آمیز مواد کی طرف دلاتے ہوئے بتارہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ یہی ہے ۔ دنیا بھر کو چیلنج کرنے کے علاوہ اُن کی بندوقوں کا رخ کچھ کرکٹروں کی طرف بھی ہے جن پر میچ فکسنگ کا الزام ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے ۔ بہرحال وزیر ِ داخلہ جومرضی کرتے رہیں، ہماری پہلی دفاعی لائن پولیس ہی ہے ۔