"MBC" (space) message & send to 7575

ہر جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہوتی!

"دی آر ٹ آف وار "جس کسی نے بھی پڑھ رکھی ہے وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ اپنی جنگوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے۔ ہر جنگ لڑنے کے قابل نہیںہوتی مگر جب کوئی ہو تو اس میں ٹائمنگ اور سٹریٹیجی ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ بظاہر کوئی بڑی حکمت عملی نظر نہیں آتی مگر ایک واضح مورچہ بندی ہو چکی ہے۔ حکومت اسے اپنا اصولی موقف قرار دیتی ہے کہ احتساب سب کے لئے۔ گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے سب کے لئے یکساں انصاف اور "کسی شعبے میں کوئی مقدس گائے نہیں "کے دعوے کے ساتھ تنقید کو یکسر مسترد کردیا۔ حزب اختلاف کو دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے یا وہ بھی وہی کچھ کر رہی ہے جو کچھ وزیر اعظم اپوزیشن میں رہتے ہوئے کرتے رہے؟ سیاسی کرداروں کی اس بے باکی کو دہرائے جانا سیاست کی حقیقت ہے۔ جہاں تک سرکار کی پسندیدہ اصطلاح "بلا تفریق" کی بات ہے ‘گو کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرموں کے تبادلے کا کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہیں مگر ایسے ایم او یوز پر دستخط کئے جا رہے ہیں جن سے اسحق ڈار کو واپس لانے کی راہ ہموار ہو سکے‘ مگر دبئی میں مقیم جنرل مزے میں ہے اور کسی میں اسے چھونے کی جرا ¿ت نہیں۔ وزیر اعظم نے خود ہمیں بتایا کہ اسے واپس لانا ہماری ترجیح بھی نہیں ہے۔سیاسی گردو پیش کی یہ حقیقت آج بھی اپنی آب و تاب سے قائم ہے کہ یہاں گائے کی ایک قسم نسلی طور پر مقدس ہے اور دوسری مقدس تر۔۔
کسی بھی حکومت کے ابتدائی چند مہینے سخت اقدامات اور ایسے سخت فیصلے کرنے کے لئے بہترین سمجھے جاتے ہیں جو غلط سمت کی درستی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لئے آئیڈیل ہوتے ہیں جب کہ حکومت ابھی عوامی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار نظر آتی ہے۔ بہت جلد عوامی مقبولیت کے معیار کو کارکردگی سے ماپنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے....اگر حکومت ڈیلیور نہیں کر پاتی تو.... تو وہ بدنما تخیلاتی خاکے جن میں حکومت کو کسی ادارے کا بغل بچہ کہا گیا ہے....حقیقت کا روپ دھار لیں گے.... اور حکومت جمہوری ہونے کا بھرم کھو دے گی۔
ادارہ جاتی تناو ¿تاریخ کا وہ کڑوا سچ ہے جس سے چاہتے ہوئے بھی جان نہیں چھڑوائی جا سکتی۔
صد حیف کہ شکستہ حال نظامِ عدل کے خاتمے‘ عدالتی اصلاحات متعارف کرانے‘ اداروں کو مستحکم کرنے‘ ہر سطح پر انصاف کی تیز رفتار فراہمی سے پہلے انصاف کی علمبرداری پر فخر کرنے والی تحریک انصاف بے سود جنگوں میں الجھتی نظر آرہی ہے۔
پاکستان میں اصولوں اور سیاست کے نام پر بہت شور شرابا کیا جاتا ہے مگر کبھی اصولی سیاست کی بات نہیں کی جاتی۔ افسوس کہ ہمارے ہاں اس کا ہمیشہ فقدان نظر آتا ہے۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے واقعے کو ہی لے لیجئے۔ اصولی طور پر ریاست کی طرف سے کسی بھی شخص کے لئے سرچ وارنٹ جاری کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ خصوصاً انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو تو چاہیے کہ ہر وقت نہ صرف شفافیت کے اعلیٰ ترین معیار کا مظاہرہ کریں بلکہ ہر لحاظ سے اس پر پورا اتریں۔لہٰذا کسی بھی حاضر سروس جج کے خلاف ریفرنس بھیجنا یا ان کے اپنے ہی ساتھی ججز پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کا سماعت کے بعد اس کا فیصلہ کرنا کسی طور کوئی غیر معقول روایت ہے نہ اس میں کسی تعصب یا جانبداری کی جھلک نظر آتی ہے‘ خصوصاً موجودہ بنچ کی موجودگی میں‘ جس میں اتنے اونچے قد کاٹھ اور اعلیٰ ترین ساکھ کے حامل ججز بیٹھے ہوں۔
یہاں مسئلہ اصولوں کا نہیں پس پردہ کارفرما سیاست کا ہے۔ حزب اختلاف اور وکلابرادری کی طرف سے اس ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے جس کا مقصد عدلیہ کو سرنگوں کرنا ہے تاکہ وہاں موجود اختلاف کرنے والی آوازوں کا گلا گھونٹا جا سکے۔ سرکار اس وقت طرح طرح کے الزامات کے گرداب میں پھنسی نظر آتی ہے کہ وہ چند ججز سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے‘ عدلیہ کو ہراساں کرنا چاہتی ہے‘ ان کی دیانت داری پر انگلی اٹھا کر ان کے دیئے گئے فیصلوں کی ساکھ مشکوک بنانا چاہتی ہے‘ کسی جج کے عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے‘ کیا یہ تمام الزامات بے بنیاد اور محض مفروضوں پر مبنی ہیں؟
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ ریفرنس صرف ان حاضر سروس ججز کے خلاف دائر کئے گئے ہیں جن کے فیصلوں پر آمادگی کے لیے بہت سے لوگوں میں ہچکچاہت نظر آتی ہے.... اس صورتحال میں نہ تو فاضل ججزز انصاف کے تقاضوں کو عبور کر پائیں گے.... نہ حکومت اپنی نیت کی شفافیت کا دریا عبور کر پائے گی۔ دونوں کے تناظر میں دیکھنے سے تو یہ لگتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ریفرنس والے جج نے بعض ایسے اہم فیصلے دیئے ہیں جن سے کچھ حلقے خوش نہیں ہیں۔ خواہ یہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی بندش ہو‘ جس سے شریف فیملی کو فائدہ ہوا یا فیض آباد دھرنے کا اہم فیصلہ ہو‘ مذکورہ بالا جج نے اپنی دلیری اور یکسوئی کی بدولت قابل رشک عزت کمائی ہے۔ جس جج نے ہر موقعے پر رائے عامہ یا کسی دباو ¿ میں آئے بغیر جرا ¿ت مندی سے اختلافی فیصلے دیئے ہوں اس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اور مقاصد پنہاں ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے وقت میں جب دیگر کئی سنگین چیلنجز سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت تھی اس بے وقتی محاذ آرائی سے گریز کیا جا سکتا تھا یا اس مسئلے کو کسی اور انداز میں بھی حل کیا جا سکتا تھا۔
اگرچہ ایک کمزور سمجھے جانے والے ریفرنس کے باوجود وکلابرادری کو اس بات کا ادراک ضرور کر لینا چاہئے کہ یہ کلی طور پر ایک بے بنیاد ریفرنس نہیں ہے۔ بظاہر اس کے کچھ ایسے پہلو ضرور ہیں جو مزید وضاحت اور تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ اس پر بے جا شور شرابا کرنے یا 2007ءجیسی وکلاتحریک شروع کرنے کی باتیں کرنے کے بجائے وکلابرادری کو چاہئے کہ وہ اعلیٰ سطح پر شفافیت کے مطالبے کی حمایت کریں اور انہیں اطمینان ہونا چاہیے کہ معزز جج کی قسمت کا فیصلہ کوئی من پسند کمیشن نہیں بلکہ انتہائی نیک نام اور دیانت
دارانہ ساکھ کے حامل محترم جج صاحبان ہی کریں گے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کا ملک گیر احتجاج....ریفرنس کی کاپیاں جلانے کا عمل اور عدالتوں کی تالا بندی خود عدلیہ کی تکریم اور اعتماد پر کاری ضرب لگاتا ہے.... گویا اس عمل کو عدلیہ کے خلاف عدم ِاعتماد سمجھا جائے گا۔ وکلاحضرات کو چاہیے کہ عدالتی غیر جانبداری کی عمدہ ر وایت کو نقصان پہنچا کر اس منظم معاشرے کی بنیادیں ہلانے سے اجتناب کریں ورنہ اس عدالتی روایت کو بحال کرنے میں پھر کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اور یہ کسی طور عوام کی خدمت نہیں ہو گی۔
یہ بات اپوزیشن کے حق میں جاتی ہے کہ وہ اس کیس کو عدالت کی ساکھ اور آزادی کے لئے ایک چیلنج بنانے کی کوشش کرے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ راتوں رات عدلیہ کی محافظ بننے والی ان جماعتوں نے ماضی میں اس کی تحقیر کرنے‘ حتیٰ کہ اس پر حملہ آور ہونے سے بھی گریز نہیں کیا۔عدلیہ بحالی کی تحریک چلانے کے باوجود مسلم لیگ نون آج جن ججز کو تحفظ دینے کی آرزو مند ہے اس نے انہی ججز کی تضحیک اور تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس نے اپنے اقتدار کے آخری دو برسوں کے دوران کوئی شرمندگی محسوس کئے بغیر عدلیہ کی جانبداری کا ہنگامہ بر پا کئے رکھا۔ اس کا ماضی بھی اتنا خوبصورت نہیں ہے‘ بقول گوہر ایوب: نواز شریف جسٹس سجاد علی شاہ کو جیل میں ڈالنا چاہتے تھے خواہ ایک رات کے لئے ہی کیوں نہ ڈالیں۔
اگر عدلیہ پر واقعی کوئی حملہ ہوا ہوتا تو یقینا اپوزیشن سے توقع ہوتی کہ وہ عدلیہ کے وقار کے لئے اٹھ کھڑی ہو اور اس اقدام کو پسند بھی کیا جاتا۔ اگر اس کیس میں کوئی جان نہیں ہے اور یہ محض مذکورہ جج صاحب کی ذاتی شہرت کو داغدار کرنے کی کوشش ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل میں بیٹھے ان کے معزز رفقاکو چاہیے کہ وہ انہیں اس کیس سے کلیئر کرتے وقت اس امر کا ضرور ذکر کریں۔ دریں اثنا اپوزیشن اور وکلا برادری کو ہر لحاظ سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ریاستی اداروں کی فالٹ لائنز سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے‘ نہ ہی ریاست اور اس کے عوام کے درمیان کسی قسم کی دوری اور اجنبیت پیدا کرنی چاہیے۔
سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو تحفظ فراہم کرے‘ ارکان اسمبلی کو سختی سے منع کرے کہ وہ رمزو کنایہ میں یا آدھا سچ بول کرکسی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کریں کیونکہ اس طرح یہ امر ہمارے ہاں سیاسی انتشار میں مزید اضافے اور انجام کار اداروں میں تصادم کا سبب بن سکتا ہے یا ان کے درمیان باہمی عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ اسی صورت نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے کہ حکومت اس کے تمام تر مضمرات پر پیشگی غور و خوض کرنے کو یقینی بنائے۔ اس معاملے سے نمٹنے کے لئے کئی راستے اختیار کئے جا سکتے تھے۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ریفرنس دائر کرنے سے پیشتر عدالت عظمیٰ کے اس سینئر جج سے نجی سطح پر ملاقات کر کے‘ ان سے
وضاحت لی جا سکتی تھی۔ اگر ان کا جواب تسلی بخش نہ ہوتا یا وہ تعاون سے انکار کر دیتے تو سرکار کے پاس ضابطے کی روایتی کارروائی کے سوا اور کوئی آپشن نہ بچتا۔ اگر کابینہ کو اس معاملے میں اعتماد میں لے لیا جاتا‘ حکومت نے دانشمندی‘ احتیاط اور صراحت کا مظاہرہ کیا ہوتا‘ ریفرنس لیک نہ ہوتا اور اس مسئلے پر اتنا ہنگامہ نہ برپا کیا جاتا تو اتنی شرمناک صورت حال سے بچا جاسکتا تھا یا کم از کم سازشی تھیوریز کو یوں سر اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔
اس معاملے کے درست ادراک‘عملیت پسندی اور تدبر کے فقدان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن اور بھی بپھر چکی ہے۔ یوں کہیں کہ دو بڑے سیاسی حریفوں کو باہم شیر و شکر کرنے کا کریڈیٹ کسی سیاسی معاہدے کو نہیں بلکہ خان صاحب کو جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی حمایت بھی ڈنکے کی چوٹ پر اور ملاقاتیں بھی سینہ تان کر....بلاول بھٹو کے افطار ڈنر کے بعد مریم نواز کی دعوت.... یہ پتہ دے رہی ہے.... لوہار ‘مولوی نواز شریف اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی سیاست کو جماعتوں کی نئی پود "سیاست کے وسیع تر مفاد" میںدفن کرنے جا رہی ہے۔
اس سال کے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی‘ معاشی شرح نمو میں کمی‘ روزگار کے مواقع میں گراوٹ اور بڑھتے ہوئے افراطِ زر سے اپوزیشن کے ہاتھ حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا جواز آگیا ہے۔ نقصانات میں کمی کرنے اور بجٹ کو آسانی سے پاس کرانے کو یقینی بنانے کی بجائے حکومت نے وکلابرادری کے ساتھ بھی محاذ آرائی
شروع کر کے بیک وقت اتنے محاذ کھول لئے ہیں کہ خود ہی بہت سے خطرات میں گھر گئی ہے۔
آنے والے دنوں میں مزید سیاسی گرفتاریوں سے اور ایک وفاقی وزیر کی زبان سے مسلم لیگ نون کے موجودہ سینئر نائب صدر کی متوقع گرفتاری کے سرعام اعلان سے تحریک انصاف کو ایسا کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہو گا‘ جس کی وہ توقع لگائے بیٹھی ہے۔ نصف شب کو قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے ایک بار پھر "نہیں چھوڑوں گا "کی رٹ لگائے رکھی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس طرح کے متضاد بیانات سے حکومت کو بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ساتھ ہی وکلابرادری میں پائی جانے والی بے چینی سے صورت حال چشم زدن میں دگر گوں ہو سکتی ہے۔
عوامی مقبولیت تحریک انصاف کو اس نہج پر لے آئی کہ حکومت کا مستقبل اس کی بصیرت ‘ دانشمندی ‘ دور اندیشی اور معاملات کی سمجھ طے کرے گی۔حکومت کا اپنی مدت پوری کرنے کی گارنٹی صرف اور صرف بہترین گورننس دے سکتی ہے۔
جناب وزیر اعظم اپنی جنگوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیجئے یا کم از کم اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں