سید منور حسن کے اس دھماکہ خیز بیان کے بعد کہ ریاست کے باغی حکیم اللہ محسود کو شہید کی حیثیت حاصل ہے‘ ایک بلاوجہ کی بحث چھڑ گئی۔ مناسب ہوتا کہ سید صاحب اپنے دلخراش بیان سے رجوع فرما لیتے۔ لیکن جماعت اسلامی کا زیادہ تر ریکارڈ یہی ہے کہ یہ عوام الناس کے عمومی رحجان کے خلاف موقف اختیار کرتی ہے اور پھر اکثریت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کبھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اور اس نے کبھی کوئی الیکشن نہیں جیتا ۔ سید صاحب نے ایک ایسے وقت میں تکلیف دہ بیان جاری کیا جب کہ پاک فوج اپنے وطن اور عوام کی حفاظت کے لئے باغیوں اور عوام دشمنوں کے خلاف برسرپیکار ہے اور پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ کی امریکی ڈرون کے حملے میں ہلاکت کو شہادت قرار دے ڈالا۔ اس بات کا موقع محل سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام اپنی فوج اور ریاست کے باغیوں کے بارے میں واضح خیالات رکھتے ہیں۔ انہیں ایک نئی بحث میں الجھانے کا مطلب صرف ایک ہو سکتا ہے کہ بے گناہ شہریوں کی شہادتوںاور وطن کی حفاظت کے لئے عوام کے اندر جو یکجہتی پائی جاتی ہے‘ اس کی جگہ انتشار پھیلایا جائے اور ظاہر ہے انتشار کا فائدہ ہمیشہ دشمن اٹھاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف کو داد دینا پڑے گی کہ فوج کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر سید صاحب نے جو زخم لگایا تھا‘ انہوں نے بلاتاخیر اس پر مرہم رکھنے کے لئے شہدا کی یادگار پر پھول چڑھائے اور دعا مانگی۔ جنرل کیانی ان کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم کی اس بروقت حاضری نے لاکھوں شہیدوں کے پسماندگان اور ساتھیوں کے شکستہ دلوں کو پھر سے مضبوط کیا۔ ان کے ماند پڑتے حوصلوں کو تقویت دی اور اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے کی جو کوشش کی جا رہی تھی‘ اسے مٹی میں ملا دیا۔ نوازشریف کے بروقت اقدام نے اس زہریلے بیان کے اثرات ماند کر دیئے‘ جو محض دلوں کو دکھانے کے اذیت پسندانہ طرزعمل کا نتیجہ تھا۔ یہاں پر مجھے قاضی حسین احمد بہت یاد آئے۔ جماعت اسلامی کی زندگی میں اگر اسے کبھی منتخب ایوانوں میں قابل ذکر نشستیں ملیںیا شریک اقتدار ہونے کا وقت آیا‘ تو یہ سارے واقعات قاضی حسین احمد مرحوم کے زمانے میں ہوئے۔ وہ ہمیشہ عوامی رحجانات کا لحاظ رکھتے۔ شدید مخالفانہ بیانات کے جواب میں انتہائی شائستگی سے کام لیتے۔ یہاں تک کہ جو مولانا فضل الرحمن آج جماعت اسلامی سے دوردور رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ متحدہ محاذوں میں شامل رہے اور مخلوط حکومتوں میں بھی شرکت کی۔ اب میں ایک تاریخی انٹرویو کا حوالہ پیش کروں گاجو سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 17اگست 1948ء کو دیا تھا۔ جب قائد اعظمؒ حیات تھے۔ یہ انٹرویو جماعت اسلامی کے ترجمان سہ روزہ ’’کوثر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ کل ایک کالم میں اس کا سرسری سا ذکر آیا۔ آج میں ریاست کے باغیوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مولانا مودودی مرحوم کے خیالات نقل کر تے ہوئے ان کے جانشینوں کو کچھ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ مولانا سے سوال ہوا تھا کہ ’’ایک ذمہ دار خطیب نے آپ پر الزام عائد کیا ہے کہ آپ نے کشمیر میں شہید ہونے والوں کی موت کوحرام قرار دیا اور انہیں جہنمی کہا۔ کیا واقعتا ایسا ہے؟‘‘ جواب تھا’’یہ بات میں نے کبھی نہیں کہی۔ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ جب تک حکومت پاکستان نے حکومت ہند کے ساتھ معاہدانہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں‘ پاکستانیوں کے لئے کشمیر میں‘ ہندوستانی فوجوں سے لڑنا ازروئے قرآن جائز نہیں۔ میرے اس قول کو لے کر ایک منطقی ہیرپھیر کے ذریعے یہ نتیجہ نکال لیا گیا ہے کہ جب ایسا کرنا جائز نہیں‘ تو جو لوگ وہاں لڑ کر مارے جاتے ہیں‘ وہ ضرور حرام موت مرتے ہیں اور جہنمی ہیں۔ پھر اپنے نکالے ہوئے اس نتیجے کو زبردستی مجھ پر تھوپ دیا گیا کہ یہ میرا قول ہے۔یہ دراصل تکفیر بازوں کا پرانا حربہ ہے کہ کسی شخص کی کہی ہوئی اصل بات پر اگر لوگوں کو اشتعال نہ دلایا جا سکے‘ تو اس میں سے ایک دوسری بات خود نکال کر‘ اس کی طرف منسوب کر دی جائے۔ درآنحالیکہ اس نے وہ بات نہ کہی ہو۔مثلاً ایک گروہ کے نزدیک‘ ایک چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوسرے کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ اب بڑی آسانی سے اول الذکر گروپ پر تھوپ دیا جا سکتا ہے کہ وہ موخرالذکر گروہ کے تمام لوگوں کی نمازوں کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس طرح کھینچ تان سے کام لے کر بارہا مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جا چکا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ فتنہ پردازی کا یہ فن اب تک تازہ ہے۔ (تازہ کیا؟ نشوونما پا کر پاکستان میں انتشار کو مسلسل فروغ دے رہا ہے۔ ناجی)سیدھی سی بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں اور دلائل کے ساتھ اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔ دوسرے علما کچھ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ بھی اپنی رائیں بیان کر دیتے ہیں۔ اب جسے میری رائے پر اطمینان ہو‘ وہ اس پر عمل کرے اور جسے دوسرے علما کے فتوے پر بھروسہ ہو‘ وہ اس پر عمل کر لے۔ کسی کی عاقبت کے متعلق پیش گوئی کرنا اور کسی کو جنت اور کسی کو دوزخ بانٹنا میرا کام ہے اور نہ کسی دوسرے عالم کا۔ یہ خدا کا کام ہے کہ وہ اپنے جس بندے کو چاہے جنت دے دے اور جسے چاہے دوزخ میں جگہ دے۔ میں کسی مسئلے پر جس حد تک اظہار رائے کر سکتا ہوں‘ وہ صرف اس قدر ہے کہ ایساکرنا شرعاً صحیح ہے یا نہیں اور اپنی رائے پر بھی مجھے اصرار نہیں ہو گا کہ ضرور اسی کو مانا جائے۔ اگر کوئی عالم دین دیانتداری کے ساتھ اس رائے سے اختلاف رکھتا ہو اور خود عمل کرے یا اس کے فتویٰ پر کوئی دوسرا شخص عمل کر دے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ میں جس سچ چیز کو صحیح سمجھتا ہوں‘ اس پر خود عمل کرتا ہوں اور دو سروں کو وہی رائے دے سکتا ہوں اور جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل مجھے مطمئن نہ کر دے‘ اپنی رائے دیانتاً واپس نہیں لے سکتا۔ اجتہادی مسائل میں علما کا قدیم سے یہی طریقہ چلا آ رہا ہے اور کبھی کسی ذمہ دار عالم نے اپنی اجتہادی رائے کے متعلق ایسا اصرار نہیں کیا کہ جو لوگ کچھ دوسری رائے رکھتے ہیں‘ ان کے عمل کوباطل قرار دیں اور ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کا پیشگی فیصلہ صادر کریں۔‘‘(یہی سید منور حسن نے کیا ہے۔ انہوں نے خدائی اختیار استعمال کرتے ہوئے‘ ایک دہشت گرد کو شہید قرار دے دیا‘ جس کا مقام جنت ہوتا ہے اور پاک فوج کے جانیں قربان کرنے والے سپاہیوں اور افسروں کو شہادت کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔ناجی) یہاں پر آ کر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ’’ آپ جہاد کشمیر کو جہاد ہی نہیں مانتے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کی رائے کی بنیاد کیا ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا ’’میں بارہا اس بات کو واضح کر چکا ہوں کہ کشمیر کے لوگوں کو اپنی مدافعت کے لئے لڑنے کا پورا حق حاصل ہے اور ان کی لڑائی جہاد کے حکم میں ہے۔ اب جو لوگ کوئی غلط بات مجھ سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ مولانا سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کے متعلق اس بات کا بھی عام چرچا کیا جا رہا ہے کہ آپ کشمیری مجاہدین کو مدد دینے کے خلاف ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے پاکستانیوں میں بھی اور آزاد قبائل میں بھی بہت بددلی پھیلائی جا رہی ہے؟‘‘ مولانا کا جواب تھا ’’آزاد قبائل کے جو لوگ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ وہ قطعاً کسی ایسے معاہدے کے پابند نہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے۔ وہ اگر کشمیری مجاہدین کی امداد کے لئے جائیں‘ تو ان کو حق پہنچتا ہے اور ان کا اسلامی فرض ہے کہ وہ‘ ان کی مدد کریں۔ البتہ انہیں یہ کام حسن نیت کے ساتھ کرنا چاہیے اور اسلامی حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔رہا پاکستان کے لوگوں کی طرف سے امداد کا سوال‘ تو میں نے اس معاملے میں جو کچھ رائے ظاہر کی ہے‘ وہ جنگی امداد کے متعلق ہے اور جنگی امداد میں صرف دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک اسلحہ فراہم کرنا۔ دوسرا لڑنے کے لئے آدمی بھیجنا۔ یہ دو قسم کی مدد دینا میں اس وقت تک جائز نہیں سمجھتا‘ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کسی طرح کے معاہدانہ تعلقات نہیں تھے یا اب نہیں رہے۔ان دو قسم کی اعانتوں کے سوا ہم آزاد کشمیر کے لوگوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو غلہ‘ کپڑا‘ دوائیں‘ مرہم پٹی کا سامان‘ طبی امداد کے لئے ڈاکٹر اور تیماردار سب کچھ بھیج سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر وہ پاکستان میں آکر اسلحہ خریدیں تو ان کے ہاتھ وہ بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں خود جماعت اسلامی بھی خاموشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کر رہی ہے اور یہ چیز اصولاً معاہدانہ تعلقات کے خلاف نہیں ہے۔‘‘ (جاری)