گزشتہ ہفتے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی‘دونوں رہنما خوشگوار موڈ میں دکھائی دئیے۔اس پریس کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ نے اہم اعلان کیا کہ '' انہوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے نیا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے‘اسرائیل کو جو سکیورٹی چاہیے ‘وہ اسے دی جائے گی‘ فلسطینیوں کو وہ ریاست ملے گی ‘جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔اس اعلان میں بظاہر توسب ٹھیک لگ رہا ہے ‘مگر اس کے پیچھے کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔
دراصل صدر ٹرمپ کا منصوبہ نیتن یاہو کو ان کے مشن میں کامیاب کروانا ہے‘ نیز فلسطینیوں کو ایک ایسی ریاست ملے گی ‘جو چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ غیرخودمختار ہو گی اور اس کے اردگرد اسرائیلی علاقہ اور یہودی بستیاں ہوں گی۔یقینا ہر ذی شعوراس منصوبے کو با آسانی سمجھ گیا ہوگا۔امریکی صدر ٹرمپ کو شاید یہی لگ رہا ہو گا کہ وہ ''صدی کی سب سے بڑی ڈیل‘‘ پیش کر رہے ہیں‘مگر دنیا اتنی بے وقوف نہیں کہ وہ ڈیل اور ڈھیل میں فرق نہیں سمجھتی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا ۔ایران کے صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کے اسرائیل فلسطین تصفیہ کے لیے مذکورہ بالا امن منصوبہ کو تمام مسلمانوں کے لیے شرمناک اور قابل ِنفرت قرار دیا ہے‘اسی طرح ترکی کی جانب سے بھی سخت رد عمل دیکھنے کو ملا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ کی نام نہاد''صدی کی ڈیل‘‘پر ردعمل کوئی حیران کن نہیں ۔ اسرائیلیوں نے اس کو ایک عظیم اقدام قرار دے کر قبول کر لیا‘ لیکن اس کی تفصیل منظرعام پرآنے تک توثیق نہیں کی ہے۔ فلسطینیوں کا موقف پیش گوئی کے عین مطابق تھا۔انہوں نے اس کی تفصیل جاننے سے پہلے ہی اس کو مسترد کردیا۔عرب میڈیا میں یہ بھی سننے کو ملا کہ یہ امن منصوبہ ‘ نیتن یاہو کو جیل جانے سے روکنے کا حربہ ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کا عمل نیا نہیں‘کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ بہت سے برسراقتدار حکمرانوں کو کرسی سے ہٹایا گیا۔عرب نظاموں کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے۔لیبیا میں معمر قذافی اور عراق میں صدام حسین کی حکومت گرا دی گئی۔ سوڈان اپنا آدھا حصہ گنوا بیٹھا۔عمرالبشیر معزول ہوئے اور شام تباہی کے دہانے پر ہے۔شرق ِاوسط کے خطے کی توانائی کے بنیادی مآخذ کی حیثیت سے تزویراتی قدر دن بدن کم ہوتی چلی گئی‘جسے امریکہ کی تیل کی پیداوار میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کو قرارد یا جاتا ہے۔شرق ِاوسط میں بہت سے لیڈر آج بھی پرانے محافظوں کی باقیات کے طور پر موجود ہیں‘ لیکن وہ خطے میں رونما ہونے والی تاریخی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے دکھائی نہیں دیتے۔اسرائیل کے لیے درد سر صرف فلسطین کا مسئلہ ہے۔وہ اس کو بند ہوتا دیکھنا چاہتا ہے‘ ساتھ ساتھ اپنے مفادات بھی مقدم رکھنا چاہتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کے حوالے سے کئی مذاکراتی عمل ہو چکے ہیں۔ 1993ء اور 1995ء میں اوسلو میں طے شدہ معاہدوں سے فلسطینیوں کو بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے میں مدد ملی اوران کا ایک انتظامی ادارہ بھی وجود میں آیا تھا۔اوسلو معاہدے کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی اپنی آبائی سرزمین پر واپسی کی راہ ہموار ہوئی تھی۔کچھ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کا سب سے اچھا اتحادی امریکا کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ ماضی میں امریکا نے اپنے زیراثر فلسطینی دھڑوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا کہ قیام امن کے لیے تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہو جا ئیں ۔ امریکی امن مذاکرات میں اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچانے کے لے انتھک کام کرتے رہے ہیں۔مرحوم فلسطینی صدر یاسرعرفات کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال اٹھائے ۔یہ محض الزام ہے‘ تاہم یہ سچ وقت ہی ثابت کرے گا۔
بادی النظرجب بھی امن مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے‘ اس کے متاثرہ فریق ہمیشہ فلسطینی ہی رہے ہیں‘ دوسرا کوئی نہیں۔کسی معاہدے کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل ہر روز فلسطینی اراضی پر قابض ہوتاچلا گیا اور فلسطینی علاقے سکڑتے چلے گئے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ ہی نہیں ‘بلکہ تمام امریکی صدور ‘اسرائیل ہی کی طرف داری کرتے رہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹیز ان سے معاملات طے کرتی رہی ہیں ۔ بین الاقوامی قانون کے تحت امریکی سفارت خانے کو یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں منتقل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پورا یروشلم ہی اسرائیل کا ملکیتی ہوجاتا ہے۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے باوجود کہ گولان کی چوٹیاں اسرائیل کا حصہ ہیں‘انہیں اقوام متحدہ کے نقشوں میں شام کے مقبوضہ علاقے ہی سمجھاجاتا ہے ۔(جن پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے)۔
فلسطینی کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔اپنے مفادات کی جنگ اپنے زور بازو پر جتنا لڑ سکتے ہیں‘ کئی دہائوں سے لڑتے چلے آرہے ہیں۔بعض حلقوں کی جانب سے خیال کیا جا رہا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس ہی یہ جنگ‘ مذاکرات کے ذریعے لڑیں گے ۔ انہیں واحد شخصیت قرار دیا جاتا ہے ‘جو مذاکرات کی بحالی کے لیے یہ نئی جنگ لڑسکتے ہیں۔وہ فلسطین کے تاریخی لیڈروں میں سب سے ضعیف العمر اور عقلیت پسند ہیں۔ اگر وہ نہیں ہوتے تو سولہ سال قبل یاسر عرفات کی وفات کے بعد فلسطینی رہنمائوں میں شاید افراتفری پھیل چکی ہوتی‘تاہم فلسطینی رہنما کیا فیصلہ کرتے ہیں ‘کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ لازم نہیں کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر سبھی باتیں تسلیم کی جائیں‘اگر مسلم امہ متحد ہو جائے اور دبائو بڑھائے توفلسطین کے مسئلے کے حل کی صورت میں کوئی معجزہ بھی سامنے آسکتا ہے۔