علاقائی ارتباط واتصال کا خواب اور خطے میں امن اور استحکام ‘نیز شرق ِاوسط کے ممالک کے درمیان ایک طاقتور اتحاد کی تشکیل ِنو کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔افغانستان امن معاہدے کے بعد عرب ممالک کی نظریں مسئلہ فلسطین پر جمی ہوئی ہیں۔اس حوالے سے سعودی فرمانروا و دیگر ممالک کے رہنماؤں کے بیان بھی سامنے آئے رہتے ہیں۔
گزشتہ ماہ اپنے کالم ''صدی کی بڑی ڈیل یا ڈھیل ‘‘ کے عنوان سے قارئین کو مخدوش حالات کے بارے میں بتا چکا ‘ اگرفلسطینیوں اورا سرائیلیوں کے درمیان کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوتی ہے‘ تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان معمول کے تعلقات بھی استوار نہیں ہوں گے۔ کوئی مربوط تعلق ہوگا اور نہ تعاون کیلئے کوئی پیش رفت ہوگی۔عرب دنیاکو سٹیٹس کو ‘کی بجائے مذاکرات کی بحالی اور اس عمل کیلئے علاقائی حمایت کی ایک معقول اساس کی ضرورت کو ترجیح دینی چاہیے۔اس حوالے سے ''عرب امن اقدام‘‘ ہی اچھا پلیٹ فام ثابت ہو سکتا ہے‘ تاہم امریکا اور اس کے اتحادی رہنماؤں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ انسانیت کش اسرائیلی اقدامات پر صرف مذمتی بیان ہی دیں۔ ''صدی کی ڈیل‘‘ پٹاری سے باہر آچکی اور ایک صدی پرانا اسرائیل فلسطین تنازع ایک مرتبہ پھر موضوع بحث ہے؛اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن اقدام جیسے نعرے کے بعدسے اب تک تشددکے واقعات کم ہوئے‘جیسا کہ بعض مبصرین پیش گوئی کررہے تھے‘ مگر امید بہت کم دکھائی دیتی ہے کہ نئے منصوبہ سے فریقین میں برسوں سے تعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی میں کوئی مدد ملے گی۔
2007ء میں جب سلام فیاض کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم نامزد کیا گیا تو اس کے بعد ان فلسطینیوں کی جان میں جان آئی‘ اسے ''فیاض ازم‘‘کا نام دیا گیا۔ان کی سلسلہ وار اصلاحات سے اقتصادی ترقی ہوئی‘اگر کہا جائے یہ فلسطینیوں کی اب تک کی سب سے بہترین حکومت رہی ہے غلط نہ ہوگا‘ لیکن انتخابات کی عدم موجودگی اور سلام فیاض کے پیچھے کوئی اتحاد کارفرما نہ ہونے کی وجہ سے لوکل تنظیموں نے انہیں نکال باہر کرنے کے لیے سازش کیں اور حسبِ معمول سیاسی انداز میں حکومت کے پیچھے لگ گئے۔اس کے بعد صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ ‘بظاہر فلسطینیوں کے حقیقی مسئلہ کی ترجمانی کرتاہے‘مگر اسے من و عن قبول کرنے سے فلسطینیوں کواپنی سرزمین کا صرف 15 فی صد ہی مل پائے گا۔ان کی ریاست بہ مشکل ہی خود مختار ہوگی اور آزاد تو بالکل بھی نہیں۔فلسطینیوں کی تشویش اور تحفظات جواز کے حامل ہیں‘اگر آج کی دنیامیں اقتصادی ترقی اور نشوونما کیلئے اراضی پیشگی بنیادی ضرورت ہے تو شاید ایک صدی قبل جب فلسطینی‘ اسرائیلی تنازع پہلی مرتبہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت بھی یہی معاملہ تھا اور اس کے بعد آنے والے عشروں میں بھی یہی معاملہ رہا ہے۔
غالباً اٹھارہ سال قبل سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منعقدہ عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے موقع پر امن کیلئے اپنا یہ ویژن پیش کیا تھا۔اس امن منصوبہ کی عرب لیگ کے رکن ممالک نے منظوری دی تھی‘ جو آج بھی موثر ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک کسی بھی اسرائیلی حکومت نے سرکاری طور پر اس امن تجویز پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ منصوبہ میںتنازع کا منصفانہ اور قابل قبول حل پیش کیا گیا تھا اور اس کا مقصد اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایہ ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرناتھا۔یہ امن اقدام دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کیلئے آج بھی بہترین پلیٹ فارم مانا جاتا ہے‘ کیونکہ اسی کو سب سے زیادہ علاقائی حمایت حاصل ہے‘ نیزاگر ٹرمپ انتظامیہ کی ''صدی کی ڈیل‘‘اپنا کام دکھانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ایسے کئی سوالات ہر ذی شعور کے ذہنوں میں زیر گردش ہیں۔اسرائیل کی بات کریں تو بہت سے اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ جوں کی توں (سٹیٹس کو) صورت حال کو برقرار رکھا جائے تو ان کیلئے کوئی بُری چیز بھی نہیں ۔وہ اپنی زندگیاں آج بھی پر امن طریقے سے گزارتے ہیں‘مگر اصل قہر تو مسلمانوں پر آئے روز ڈھائے جاتے ہیں۔
بظاہر دنیا کو خطے کے اس حصے میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کم دلچسپی نظر آتی ہے‘ لیکن سے آگے کوئی چیز نہیں اورمسئلہ فلسطین آج بھی کئی ممالک کیلئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ کشیدگی پہلے سے بڑھ چکی ؛اگرچہ اس سے اسرائیل میں اکثریت کی روزمرہ زندگی پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے ‘مگرخطے پر اس کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس میں جھڑپیں آئے روز دیکھی جاتی ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے‘ جو اب تنازع کے یک ریاستی حل کی حمایت کررہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک بھی متحد نہیں ۔ کئی محاذوں پر تو ایک دوسرے کے مخالف کھڑے ہیں۔ایسے میں فلسطین کی داد رسی کس طرح ممکن ہے؟
امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے پیش کی جانے والی یکطرفہ ڈیل سے صرف اسرائیل کی جارحیت کو ہی تقویت ملے گی۔ دیرینہ مسئلے کے حل کیلئے فلسطین اور اسرائیل کو مذاکرات کا ہی راستہ چننا پڑے گا۔ ہر مسئلے کا حل دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی سے ہی نکل سکتا ہے‘ ورنہ بگاڑ بڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔‘دونوں فریقین کی منشاء و مرضی کے مطابق ‘ہی مسئلہ حل ممکن ہے۔ امریکی صدرکو سمجھنا چاہیے کہ طے شدہ تقسیمی منصوبے کے تحت ہی دو ریاستوں کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔