"NNC" (space) message & send to 7575

اسلحے کی دوڑ

وقت گزرنے کے ساتھ دنیا غیر مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہر ملک عسکری اور جوہری رقابت کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہے۔ہم معاشی بحرانوں کے خوف سے ابھی پوری طرح نہیں نکل پائے کہ لڑنے کے نت نئے طریقے دریافت ہو رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری نظر اسلحے کی دوڑ پر نہیں پڑ رہی۔ حالیہ پانچ برسوں کے دوران دنیا بھر میں اسلحے کی خریداری میں 16 گنا اضافہ ہو چکا۔اس حوالے سے مختلف رپورٹس آتی رہیں ‘ جن میں اسلحے کی برآمدات میں چین‘ امریکا اور روس سر فہرست رہے۔ 2010ء تا 2014ء امریکی اسلحے کی فروخت کا تناسب 31فیصد ‘ جبکہ روسی اسلحے کا تناسب 27 فیصد رہا۔2019ء کے مالی سال کے دوران چینی حکومت نے 2017ء کے مقابلے میں اپنے دفاعی بجٹ میں 7.5 فیصد کا اضافہ تجویز کیا ۔اسلحے کی خریداری میں شرق ِاوسط پیش پیش رہا ‘جس میں چین‘بھارت اورسعودی عرب سر فہرست ہیں۔ترکی کا شمار اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے ۔ اسلحے کی دوڑ میں آسٹریلیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق آسڑیلیا 2017ء میں چوتھی پوزیشن پر تھا‘ جبکہ2018ء میں یہ دنیا کا ہتھیار خریدنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا تھا۔ آسٹریلیا نے 50 ارب آسٹریلوی ڈالر مالیت کے جنگی جہاز اور آبدوزیں خریدیں۔آسٹریلوی حکومت کے مطابق ‘انہیں علاقائی خطرے کے باعث ہتھیاروں کی درآمدات میں اضافہ کرنا پڑا ۔ دوسری جانب سعودی عرب خطے میں اپنی برتری قائم کرنا چاہتا ہے‘شاید یہی وجہ ہے حالیہ چند برسوں سے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ دیکھا گیا۔ 
2017ء میں چین ہتھیار خریدنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا ‘لیکن 2018ء میں یہ تیسری پوزیشن پر آیا۔ بھارت دوسرے نمبر سے چوتھے نمبر پرچلا گیا تھا۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر آخر ہتھیار کہاں سے برآمد کیے جاتے ہیں؟جو ممالک ہتھیار فروخت کر رہے ہیں‘ ان میں سرفہرست امریکا‘ جبکہ دوسرے نمبر پر روس ہے۔ ان کے بعد فرانس اور جرمنی دو ایسے یورپی ممالک ہیں‘ جو ہتھیاروں کی برآمدات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بذات ِخود یہ دونوں ممالک بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر براجمان ہیں۔ پانچواں نمبرسپین کا ہے۔ 2017ء میں ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں یہ نویں نمبر پر تھا۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین اب اسلحہ سازی میں بھی سب سے بڑا دوسرا ملک بن چکا۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین اب ہتھیار سازی کے شعبے میں سب کو پچھاڑتے ہوئے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے ۔مارچ 2019ء کو چینی پارلیمان کے سالانہ اجلاس کے پہلے دن ہی تجویز پیش کی گئی ‘جس میں بتایا گیا کہ دفاعی بجٹ کو زیادہ تر کن ذیلی شعبوں میں خرچ کیا جائے گا۔ یقیناچین اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جدید تر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق‘ 2019ء میں چین کا دفاعی بجٹ 1.19 ٹریلین یوآن ‘یعنی 177.49 بلین امریکی ڈالر کے برابرتھا۔ چین کے سٹرٹیجک مفادات کے تناظر میں عالمی طاقتیں بالخصوص بیجنگ حکومت کی طرف سے عسکری صلاحیتوں کے مزید جدید اور بہتر بنانے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر ہوئی تھی‘ جب2018ء میں چین کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی نوٹ کی گئی تھی۔نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس میں چینی وزیر اعظم نے پارلیمان کو اس بات کی افادیت سے آگاہ کیا تھا۔ عصر حاضر میں عسکری حکمت عملی کو اس طرح ترتیب دیا جا رہا ہے کہ جنگی حالات میں عسکری تربیت کو زیادہ بہتر بنانے پر زور دیاتھا اور چین کی سالمیت‘ سکیورٹی اور ترقیاتی مفادات کا زیادہ بہتر انداز میں دفاع کا کہا گیا۔ یہ رقوم زیادہ تر پیپلز لبریشن آرمی کو جدید تر بنانے‘ سٹیلتھ جنگی طیاروں اور طیارہ بردار بحری بیڑوں کے حصول اور دیگر ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔چین نئی عسکری حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی اختراعات کا بھی خواہاں ہے۔ دفاعی اخراجات کے حوالے سے چین دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے‘ جبکہ پہلے نمبر پر امریکا آتا ہے۔
چین میں اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافے کے ساتھ گزشتہ برس کے دفاعی بجٹ میں کیے گئے اضافے سے چین کے ہمسایہ ملک بھارت کو کافی تشویش لاحق ہے۔اس ضمن میں چین کا کہنا ہے کہ اس کی عسکری طاقت صرف دفاعی مقاصد کیلئے ہے۔عالمی مبصرین اس حوالے سے وقتاً فوقتاً اپنی آرا دیتے رہے ہیں کہ چین ہتھیار اور دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والا ایک بہت بڑا ملک بن چکا‘ تاہم اس سلسلے میں سویڈن کے ادارے سپری کی تازہ ترین رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ چینی اسلحہ ساز ادارے اب بھی مجموعی طور پر امریکی کمپنیوں سے تو پیچھے ہیں‘ مگر چین اس شعبے میں روس کو واضح طور پر پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں