جنگیں روایتی ہوں یا غیر روایتی ‘دشمن کی ہر کمزوری سے فائدہ نہ اٹھانا بے وقوفی سمجھا جا تا ہے۔اپنے حریف یااُبھرتی ہوئی طاقت کو کمزور کرنے کیلئے جامع منصوبہ بندی سے جال بھی بنے جاتے ہیں۔چین اور امریکہ کے درمیان معاشی اور ٹیکنالوجی کی جنگ سے ہر بشر آگاہ ہے۔ ٹیرف کا اتار چڑھاؤ ہویاتجارتی پابندیاں ‘ٹیکنالوجی کی فراہمی اورتجارت کا عمل ہویاسفارتی تعلقات کوبہتر بنانے کی کوششیں‘واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان یہ کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے۔کوئی دو رائے نہیں کہ قلیل وقت میں چین نے جو ترقی کی منازل طے کیں‘ اپنی مثال آپ ہے۔زندہ قومیں ایسے ہی ترقی کرتی ہیں۔وقت کی قیدہو یاکمزور معیشت اور وسائل کی کمی‘ کبھی آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔جامع منصوبہ بندی اور ملک سے محبت کا جذبہ بالآخر سپر پاور کے برابر لاکھڑا کرتا ہے۔
آجکل دنیا کی نظریں چین پر جمی ہیں۔ وجہ ''کورونا وائرس ‘‘ ہے۔وبائی امراض نئے نہیں‘بنی نوع انسان کو روئے زمین پر قدیم ادوار سے ان کا سامنا ہے۔بلکہ اب تو سوائے چند امراض کے علاج ممکن ہے اور جو لا علاج ہیں‘ ان کے لیے بھی احتیاطی تدابیر وضع کی گئی ہیں۔میڈیکل سائنس کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔اب وہ دور ختم ہو چکاجب وبائی امراض کئی قوموں کو نگل جایا کرتی تھیں اور افسانہ نگار اپنے الفاظ میں فلمی سین کی طرح لمبی لمبی داستانیں لکھتے تھے۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو لمبی فہرست ملے گی ‘جن میں''انتونین کی وبا‘‘ جس میں50 لاکھ سے ایک کروڑ تک انسان ہلاک ہوئے۔ 165 عیسوی سے 180 عیسوی تک جاری رہنے والی اس وبا نے یورپ کے بڑے حصے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب رومی سلطنت کا ڈنکابجتا تھا۔پندرہویں صدی میں وبائی مرض کاوائرس پھوٹ پڑا جس کا آج تک پتہ نہیں لگایا جا سکا‘ غالباً1576ء تا 1580ء کا عرصہ تھا‘ میکسیکو میں20 لاکھ سے 25 لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے۔ 1772 ء میں ایران میں ایک ہیبت ناک وبا پھوٹ پڑی‘ 20 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جسے طاعون کی ایک قسم بھی کہا جاتا ہے۔1950ء کی دہائی کے آخرمیں چین ہی سے ایک فلُو پھیلا جس نے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیاتھا۔ 20 لاکھ انسان چین میں ہی ہلاک ہوئے‘ صرف چین ہی نہیں بلکہ ا مریکہ میں 70 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔اسی طرح وبائی امراض کی لمبی فہرست موجود ہے جن میں لاکھوں افراد جان کی بازی ہار بیٹھے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔اس مشکل وقت میں جہاں پاکستان جیسے مخلص دوست چین کے ساتھ آ کھڑے ہوئے ‘وہیں اس کے حریف ممالک نے بھی اسی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔چین کی بڑھتی ہوئی معیشت اور ٹیکنالوجی امریکہ کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔چینی کمپنی ہواوے اوردیگر گھریلو صنعتوں پر پہلے ٹیکسز لگائے
گئے ۔پھر ان پر پابندیاں لگائی گئیں‘موردِ الزام ٹھہرایا گیا کہ وہ امریکی صارفین کی جاسوسی کرتی ہیں۔ معاشی طور پر چین کو کمزور کرنے کیلئے کورونا جیسے مرض کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا ہے۔یہاں تک کہ چند امریکیوں نے سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی کہ چین میں کورونا سے اموات کی تعداد لاکھوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہے ‘جسے چینی حکومت چھپا رہی ہے ۔اصل جنگ مفادات کی ہے ‘ مدِمقابل کسی کو برداشت نہیں کرسکتے۔یہی طاقت کاروایتی اصول بھی ہے‘حریف کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ آپ کی جگہ لینے کے قابل نہ ہوسکے۔
عالمی معیشت کے میدان میں چین نے اپنی جڑیں دورتک پھیلا رکھی ہیں جس کا براہ راست اثر پوری دنیا پر ہوتاہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں‘چین میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کی وجہ سے بین الاقوامی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور عالمی سٹاک مارکیٹس2016ء کے بعد بدترین بحران سے دوچار ہوئی ہیں۔برٹش اور فرانسیسی سٹاک مارکیٹ میں 6 فیصد سے 13 فیصد کے درمیان کمی آئی ہے۔ یورپی سیاحتی کمپنیوں کے حصص تیزی کے ساتھ کم ہوئے۔ اسی طرح اٹلی میں میلانو سٹاک ایکسچینج سخت دباؤ میں ہے۔ یورپین ایس ٹی او ایکس ایکس 600 انڈیکس میں 0816 GMT تک 2.5 فیصدکی کمی واقع ہوئی جو اکتوبر کے بعد سے نقصان کی یہ بلند ترین سطح ہے۔میلانو کے حصص تقریبا ًتین ہفتوں کی نچلی سطح پر آگئے ہیں‘جہاں خسارے کی شرح 3.7 فیصد بتائی گئی ہے۔ایوی ایشن سٹاک کی بات کریں تو 600 انڈیکس میں
ایئر لائن سٹاک بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سٹاک میں شامل ہے‘ کیونکہ ایزی جیٹ‘ ریانیر‘ ایئر فرانس اور لفتھانسا کے حصص میں سات فی صد سے 11 فیصد کمی ہوئی ہے اور یورپی تفریحی شعبے کا انڈیکس 4 فی صد تک گر چکا ہے۔ سٹینڈرڈ اینڈ پورز کا 500 انڈیکس 50 دن کی اوسط سے گرگیا‘ جبکہ ڈاؤ بلیو چپ انڈیکس 100 دن کی اوسط سطح سے نیچے آگیا۔خلیجی سٹاک ایکسچینج میں بھی اجتماعی مندی دیکھی گئی۔ خام تیل کی عالمی منڈی میں قیمت 2 اعشاریہ 37 ڈالر کمی ہوئی جو کل فی صد کے اعتبار سے 4 اعشاریہ ایک فی صد کے برابر ہے۔سعودی سٹاک ایکسچینج تین پوائنٹ گر گئی۔ گزشتہ برس 13 مئی کے بعد سعودی سٹاک مارکیٹ کا یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔قطر میں تمام حصص گرنے کے بعد انڈیکس 1.3 فیصد گر گیا۔ ریان بینک کے حصص میں 2فیصد اور قطر نیشنل بینک میں 1 فیصد کمی واقع ہوئی۔ابوظہبی انڈیکس میں 2.2 فیصد کمی واقع ہوئی اور پہلے ابوظہبی بینک کے حصص 4.5 فیصد گرگئے۔دبئی میں انڈیکس میں 0.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی جبکہ ایامر پراپرٹیز اور ایئرعربیہ میں سے ہر ایک کے حصص میں 2.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔کویت میں انڈیکس میں 1.7 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی۔
یہ ایک حقیقت ہے ‘کوئی مستقل دوست نہیں ہوتا نہ مستقل دشمنی‘ ہمیشہ مفادات ہی مقدم ہوتے ہیں ‘مگر پاکستان اور چین کی دوستی مفادات سے بڑھ کر ہے۔ ہر مشکل وقت میں دونوں دوست ملک مل کر ساتھ چلے ‘یقینا یہ وقت بھی ٹل جائے گا۔پاکستان کی جانب سے ہمسایہ ملک کے ساتھ مل کر چلنا اور اپنی حیثیت کو دیکھتے ہوئے اقدامات کرنا خوش آئند ہے۔