مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے انٹرویو کی بنیاد پر لکھے گئے کالم کی پہلی قسط آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ دوسری قسط کی ابتدا انہی کے الفاظ سے کر رہا ہوں۔’’ذاتی طور پر میری اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد یعنی نظام اسلامی کے قیام کے سوا کسی اور مسئلے کو اپنی جدوجہد کا محور نہیں بناتے۔ دوسرے مسائل اگر پیش آتے ہیں‘ تو ان پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے نزدیک جو کچھ حق سمجھتے ہیں‘ اس کو بیان کر دیتے ہیں۔‘‘ جماعت اسلامی نے شہادت کے مسئلے پر اپنے موجودہ امیر کے دفاع میں جو بیان جاری کیا ہے‘ اسے بانی جماعت کے مندرجہ بالا الفاظ کی روشنی میں پڑھئے اور آپ کو بانی جماعت اور اس کی موجودہ قیادت کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ اب میں جہاد کشمیر کے حوالے سے مولانا کے مزید کچھ خیالات پیش کرتا ہوں۔ ’’سوال: کہا جا رہا ہے کہ آپ نے اور آپ کی جماعت نے جہاد کشمیر کو کمزور کرنے کے لئے ایک مستقل معرکہ شروع کر رکھا ہے اور اس سے محاذ کشمیر کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں خلل آ رہا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شرعاً آپ کے لئے ایسی مہم جاری کرنا لازم ہے؟ جواب:یہ مہم جاری کرنے کا الزام قطعاً بے بنیاد ہے۔ میں نے تو ایک شخص کے اصرار پر ایک پرائیویٹ صحبت میں محض اپنی رائے ظاہر کر دی تھی۔ اس کے بعد اس رائے کو پھیلانے کی پوری مہم ان لوگوں نے خود اپنے ذمے لے لی‘ جنہیں کشمیر کو بچانے کی اتنی فکر نہیں جتنی مجھے بدنام کرنے کی فکر ہے۔ ذاتی طور پر میری اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد یعنی نظام اسلامی کے قیام کے سوا کسی اور مسئلے کو اپنی جدوجہد کا محور نہیں بناتے۔ دوسرے مسائل اگر پیش آتے ہیں تو ان پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے نزدیک جو کچھ حق سمجھتے ہیں‘ اس کو بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی تبلیغ اور اس کے لئے کوئی جدوجہد نہ میں خود کرتا ہوں اور نہ جماعت کے لوگ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں میں متعدد تقریریں کی ہیں جنہیں ہزاروں آدمیوں نے سنا ہے اور کوئی سامع یہ شہادت نہیں دے سکتا کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق میں نے کچھ بھی اظہار رائے کیا ہو۔ صرف لائل پور میں چند الفاظ مجبوراً اس لئے کہے تھے کہ مجمع عام میں مجھ سے سوال کیا گیا اور میں نے جب کہا کہ سائل صاحب نجی صحبت میں مجھ سے آ کر دریافت کر لیں‘ تو اصرار کیا گیا کہ مجمع عام ہی میں جواب دیا جائے۔ جماعت کے دوسرے لوگوں کے متعلق میں نے پوری طرح تحقیق کر لیا ہے کہ انہوں نے نہ بطور خود اس مسئلہ کو کسی کے سامنے چھیڑا ہے‘ نہ کہیں اس کی تبلیغ کی ہے لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے؟ جب ہم نظام اسلامی کی دعوت پیش کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے جاتے ہیں تو فتنہ پسند لوگ جان بوجھ کر خود اس سوال کو چھیڑتے ہیں۔ معذرت کی جائے تو اصرار کرتے ہیں اور جب مجبوراً جواب دیا جائے تو الزام عائد کرتے ہیں کہ تم نے اس کے لئے مہم شروع کر رکھی ہے‘ حالانکہ مہم خود ان لوگوں نے شروع کر رکھی ہے‘ جو اخبارات میں اور خطبوں اور تقریروں میں اس سوال کو چھیڑتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال:یہ بات آپ کے علم میں آ چکی ہو گی کہ تقریر و تحریر کے ذریعے عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی معاہدانہ تعلقات نہیں ہیں اور اس بات کے کہنے والوں میں بعض پبلک اہمیت رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن کی جس آیت سے آپ نے استدلال کیا ہے اس میں لفظ ’’میثاق‘‘ آیا ہے دوسری طرف عدم محاربہ (Non Aggression) کے معاہدے یا حلیفانہ (Alliance) کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ چند اشیا کے تجارتی تبادلے کے سمجھوتوں کے لئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر آپ کس بنا پردونوں کے درمیانہ معاہدانہ تعلقات ہونے کی رائے رکھتے ہیں؟ جواب:میں جس بنا پر یہ رائے رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اولاً دونوں حکومتوں کی پیدائش ہی ایک معاہدے کے ذریعے سے ہوئی ہے جو برطانوی حکومت کی پیش کردہ تجویز کو قبول کر کے مسلمانوں اور ہندوئوں کے نمائندوں نے باہم طے کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بات آپ سے آپ شامل تھی کہ دونوں مملکتیں ایک دوسرے کی دشمن اور ایک دوسرے کے خلاف برسرجنگ نہیں ہیں‘ بلکہ پرامن طریقے سے ملک کی تقسیم پر متفق ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان فوراً سفارتی تعلقات قائم ہو گئے اور ہائی کمشنروں کا تبادلہ ہوا۔ سفارتی تعلقات ہمیشہ سے حالت جنگ (STATE OF WAR) کے نہ ہونے کی دلیل سمجھے جاتے رہے ہیں اور آج بھی سمجھے جاتے ہیں۔ پھر دونوں حکومتوں کے درمیان مالی اور تجارتی معاملات اور مہاجرین کے مختلف مسائل‘ اغوا شدہ عورتوں کی بازیافت اور کرنسی کے معاملات کے متعلق مسلسل سمجھوتے ہوتے رہے ہیں اور یہ تمام سمجھوتے اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے درمیان حالت جنگ قائم نہیں ہے ۔ دنیا کی کوئی قوم بھی کسی دوسری قوم سے مالی اور تجارتی لین دین اس حالت میں نہیں کرتی جبکہ وہ اسے اپنے خلاف برسرجنگ سمجھتی ہو۔ اس کے بعد ابھی اپریل 1948ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان کلکتے کا معاہدہ ہوا ہے‘ جس میں اور مسائل پر سمجھوتہ کرنے کے ساتھ اس امر پر بھی سمجھوتہ طے ہوا تھا کہ دونوں حکومتیں اپنے اپنے ملک کے اخبارات کو ہدایات کریں گی کہ وہ کوئی ایسی بات شائع نہ کریں جس سے یہ معنی نکلتے ہوں کہ ان دونوں کے درمیان جنگ ناگزیر ہے یا اعلان جنگ ہونا چاہیے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دونوں حکومتیں باہم مصالحانہ تعلقات رکھتی ہیں اور انہیں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اس سمجھوتے کا حوالہ دیتے ہوئے پنڈت نہرو کی معاندانہ تقریروں کے خلاف حکومت پاکستان نے احتجاج کیا ہے کہ یہ تقریریں میثاق کلکتہ کی اسپرٹ(یہاں کچھ بے ربطی ہے میں قیاساً تین الفاظ شامل کر رہا ہوں)’’ کے خلاف ہیں‘‘۔ شکایت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ ریاستوں کے متعلق تقسیم کے معاہدے ہیں لہٰذا جو بات طے ہوئی تھی‘ اس کی رو سے ریاست جونا گڑھ پاکستان میں شرکت کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان کاحصہ ہو چکی ہے اور اس کی پروا نہ کرتے ہوئے انڈین یونین نے اس پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ آخر انڈین یونین کے اس فعل کو بدعہدی قرار دینے کے سوا کیا کہا جاتا؟کہ دونوں کے درمیان کوئی معاہدانہ تعلق تھا جس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ ساری باتیں بھی اگر کسی کے نزدیک معاہدے کی تعریف میں نہ آتی ہوں تو وہ اپنی رائے کا مختار ہے۔ میں اب تک یہی سمجھتا ہوں کہ دونوں حکومتوں کے درمیان ایسے معاہدانہ تعلقات ہیں جن کو قائم رکھتے ہوئے ہم انڈین یونین کے خلاف شرعاً کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’میثاق‘‘ کا اعلان صرف اس معاہدے پر ہوتا ہے جس میں عدم محاربہ کی تصریح ہو یا جس میں باہم حلیفانہ تعلق کا عہدوپیمان ہو‘ وہ نہ قرآن سے کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں‘ نہ لغت عرب سے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اور انبیاء سے جو اقرار لئے تھے ان کے لئے لفظ ’’میثاق‘‘ ہی کو استعمال کیا ہے۔ آخر ان دونوں میں سے کون سا مفہوم ان مواقع پر مراد ہے؟‘‘ قارئین!آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں میرا تعلق اس مکتبہ فکر سے رہا ہے‘ جو پاکستان کو ترقی پسند‘ خوشحال اور مستحکم ملک کی حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ میرا شعبہ صحافت رہا اور جتنی میری بساط تھی‘ اس کے مطابق مندرجہ بالا مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔ اسی مکتبہ فکر کی سیاست میں بھی حصہ لیا مگر میں زندگی میں اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ پایا۔ مستقبل قریب میں بھی اس کی امید نہیں۔ مولانا مودودیؒ ایک دوسری طرز فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی معاشرت چاہتے تھے‘ جس میں وہ اپنی دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنی جماعت قائم کی لیکن خواب ان کے بھی پورے نہ ہوئے۔ پاکستان کا خواب قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے تو ان کا خواب پورا ہو گیا ۔ لیکن وہ پاکستان میں کیسا نظام حیات چاہتے تھے؟ اس کی انہوں نے کبھی جامع تعریف نہیں کی اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی مکمل تحریر چھوڑی۔ نتیجہ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کا نام لینے والے اپنے اپنے خیالات کو ان سے منسوب کر کے‘ اپنا اپنا نظریہ پاکستان پیش کرتے رہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت اپنے نظریئے کے مطابق خطے کو علیحدہ کر کے پاکستان سے الگ ہو گئی۔ باقی ماندہ پاکستان میں رہنے والوں نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق قیام پاکستان کے جداجدا مقاصد مرتب کر رکھے ہیں۔ کاش! قائد اعظمؒ زندگی میں پاکستان کو ایک دستور دے جاتے یامسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں اتفاق رائے سے نئی ریاست کو چلانے کے لئے متصورہ نظام کے بنیادی نکات رہنما اصولوں کی صورت میں مرتب کر لیے جاتے‘ جن پر نئی ریاست کے امور کو چلانا مقصود ہوتا۔ ان میں سے کوئی بھی کام نہ ہوا۔ اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا۔ مولانا مودودی سے جس موضوع پر زیربحث انٹرویو لیا گیا‘ وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی نسل کے لئے میں مکمل انٹرویو روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے سنڈے میگزین میں شائع کر رہا ہوںتاکہ یہ تاریخی دستاویز زیادہ لوگوں کے ہاں محفوظ ہو جائے۔