"RBC" (space) message & send to 7575

حقیقی بحران

یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ ملک اس وقت جس گہرے سیاسی بحران کی زد میں ہے، اسے صرف اس وجہ سے رد یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ حکومت کو اکثریت حاصل ہے اور پی ٹی آئی کے سوا تمام اہم سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ حکومت کے علاوہ سیاسی نظام کی شراکت دار دیگر جماعتوں، جو موجودہ نظام سے بے حد استفادہ کرتی ہیں، کی صفوں میں غلط فہمی پر مبنی رجائیت پائی جاتی ہے کہ یہ احتجاج رفتہ رفتہ خود ہی دم توڑ جائے گا ، دھرنے کے قائدین اور شرکا تھک ہار کر واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور وہ جمہوریت کی فتح کے گن گانے کے لیے اپنی جگہ پر موجود رہیںگے۔ حکمرانوں اور ان کے 'اصول پرست اتحادیوں‘ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ ان کے پاس عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ ہے اور وہ قومی اسمبلی میں اکثریت میں ہیں، اس لیے وہ آئینی اور دستوری اعتبار سے حکومت کرنے کے حقدار ہیں۔ تاہم خدشہ یہ ہے کہ نہ تو ایسے دلائل اور نہ ہی روایتی سیاسی جماعتوں کا ''نظام کو بچانے ‘‘ کے عہدکا نسخہ کارگر ثابت ہونے جارہا ہے۔ اس بحران کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہیں اور اسے چائے کی پیالی میں طوفان ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ تمام ساکھ کھونے والی زوال پذیر سیاسی جماعتیں نظام کو بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے صرف اپنے بچائو کا سامان کررہی ہیں حالانکہ دل کی گہرائیوںسے وہ بھی جانتی ہیں کہ اب لفاظی اور اشک شوئی کا وقت گزر چکا ہے۔ 
اس بحران کے تانے بانے بننے والی چیز وہ خوفناک چیلنج ہے جوکپتان روایتی سیاسی قوتوں اور سیاسی کھلاڑیوں کے سامنے رکھتا ہے۔ چونکہ حکمرانوںکے پاس عوام کو دکھانے کے لیے اچھی طرز ِ حکمرانی، آئین اور قانون کی بالا دستی یا عوامی مسائل کا حل یا ترقی، نہیں ہے، اس لیے وہ کسی بھی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی طرح اقتدار میں رہنے کے لیے جمہوری طریق ِ کار( جو اکثریت کوحکومت کرنے کا حق دیتا ہے) کا سہارا لے رہے ہیں۔چونکہ بیانات اور سیاسی اتار چڑھائو کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنے اوپر ہونے والے حملے کو آئین اور جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی اجازت نہیں دیںگے تو دراصل وہ اپنی حکومت کا بچائو کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ تاہم یہ دونوں (جمہوریت اور جمہوری حکمران) مترادف نہیں۔ اس لیے حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن)اور ان کا ساتھ دیتے ہوئے ''نظام کو بچانے‘‘ کی کوشش کرنے والی دیگر جماعتوں کے سامنے اُس سے کہیں زیادہ سنگین اور پیچیدہ چیلنج موجود ہے جتنا وہ ہمیں تاثر دیتے ہیں۔ بظاہر وہ ٹی وی پر بہت پراعتماد دکھائی دیتے ہیں لیکن اندر سے وہ ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ ایک ماہ پہلے اُنہیں موجودہ حقائق کا ادراک نہ تھا۔ دراصل کوئی سیاسی مبصر بھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا تھا کہ یہ دھرنا ایک ماہ کے بعد بھی جاری رہے گا۔ یقینا اس کے شرکا کی تعداد میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے ، اس کی شدت میں نہیں۔ 
درحقیقت عمران خان پہلی مرتبہ پاکستان کے طول و عرض میں جمہوری نظام کے تینوں اہم عناصر کا اصل کرداراجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔۔۔ وہ کردار جو یہ فیصلہ کن عناصر کئی دہائیوںسے پاکستان کی سیاست میں ادا کرتے چلے آرہے تھے۔ یہ عناصر انتخابی نظام، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ بلاشبہ جو حقائق آج کھل رہے ہیں، پاکستانی عوام انہیں بہت پہلے سے ہی جانتے تھے کہ انتخابات والے دن کیا ہوتا ہے ،سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیسے اور کیونکر بناتی اور توڑتی ہیں اور ان جماعتوںنے اب تک ملک کو کیا دیا ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ گراس روٹ لیول پر لوگ سیاست اورسیاسی طبقے سے بیزار ہورہے ہیں کیونکہ کہنے کو یہ روایتی جماعتیں اور رہنما الگ الگ نظریات اور نعرے رکھتے ہیںلیکن ان سب کا موجودہ نظام کے جاری رہنے میں مشترکہ مفاد ہوتا ہے۔ کپتان اس نظام کو عوامی زبان میں ''باریاں لینا‘‘ کہتا ہے۔ عوام کی نمائندگی اور شمولیت رکھنے والے حقیقی جمہوری نظام کی غیر موجودگی میں لوگ جمہوری عمل میں دلچسپی نہیں لیتے۔ زیادہ تر افراد کا موقف یہ ہوتا ہے کہ انتخابات اور سیاست سب ڈھونگ ہیں ، اس لیے ہمیں ان سے کیا لینا دینا۔ 
عوام کے سامنے انتخابی چوائس بھی دو روایتی سیاسی حریفوں تک محدود ہوتی ہے۔ دراصل یہ دو نظریاتی سیاسی جماعتوں کی نہیں، دوخاندانوں کی مسابقت ہوتی ہے جس کا نام ہم نے جمہوری عمل رکھا ہواہے۔ تاہم اب سیاسی معروضات تبدیل ہورہے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میںپی پی پی کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگوں کے سامنے ایک حقیقی تیسری سیاسی قوت بھی آن موجود ہوئی۔اگر ملک میں آزاد اور غیر جانبدارانہ ماحول میں اگلے انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تو یہ تیسری قوت عوام کی پہلی چوائس بن کر بھی ابھر سکتی ہے۔ اس طرح کپتان نے نہ صرف پاکستانیوں کے سامنے ایک چوائس رکھی ہے بلکہ ان کی طرف سے روایتی سیاسی جماعتوں پر لگائے جانے والے الزامات وہی ہیں جو کئی عشروں سے زبان ِ زد ِخاص وعام ہیں۔ جب وہ بدعنوانی، اقرباپروری، رشوت ستانی، اداروں کی نااہلی اور بدانتظامی کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ وہ لوگ جن کی سیاسی حمایت عمران کے ساتھ نہیں، دل سے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی باتوں میں وزن ہے۔ 
عمران خان موروثی سیاست کے منفی پہلو کو بھی اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اُنھوںنے عوام کو یہ بات تقریباً سمجھا دی ہے کہ جمہوریت اور نسل در نسل بادشاہت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر باپ کے بعد بیٹے نے ہی حکومت کرنی ہے تو جمہوریت کا بکھیڑا کرنے کا کیا فائدہ۔اس کے علاوہ جمہوریت حکمرانوں سے باز پرس کرتی ہے۔ اور اگر جمہوریت طاقتور حلقوں کا احتساب نہ کرسکے اور نہ ہی ریاست کے وسائل کو لوٹ کھسوٹ سے بچا سکے تو وہ جمہوریت نہیں، اس کے نام پر قوم سے کیا جانے والا ایک سنگین مذاق ہے۔ اسی طرح سیاسی حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا کہ ان کی دولت غیر ملکی بینکوں میں پڑی رہے اور وہ حکومت یہاں کرتے رہیں۔ 
دیگر منفی معاملات کو منکشف کرنے کے علاوہ، عمران خان نے انتخابی نظام کی ساکھ کو بہت کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔ یہ انتخابی نظام ہے جو تھیوری کے اعتبار سے کسی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت کوحق ِ حکمرانی عطاکرتا ہے۔ اگرچہ قدرے تاخیر سے لیکن خان صاحب نے بہت شدومد سے 2013ء کے انتخابات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان کے عزم وہمت، ان کی رجائیت اور میڈیا کے موثر استعمال نے اُنہیں اس وقت ملک کا اہم ترین سیاست دان بنا دیا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ وہ اپنے رن اپ پر ہیں اور اب وہ وکٹ لیے بغیر نہیں ٹلیںگے۔ دوسری طرف حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ دھرنا دینے والوں کو ڈی چوک سے کیسے نکالیں۔ وہ نہ تو طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں اور نہ ہی مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ حکومت کی تمام تر امیدوں کا مرکز دھرنے کے شرکا کی ناامیدہوکر اپنے اپنے گھروں کو واپسی ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں