جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ''کرپشن سے پیسہ چوری کرنا بھی دہشت گردی ہے‘‘۔ سراج الحق صاحب نے منصورہ میں خطاب کے دوران مزید کہا کہ مٹھی بھر اشرافیہ نے پورے نظام کو جکڑرکھا ہے۔ وہ اپنا سٹیٹس کو بحال رکھنے کے لیے ہر قسم کے استحصالی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ سراج صاحب نے کہا کہ بااثر لوگ کرپشن میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مختلف پارٹیوں میں خود کو چھپا رکھا ہے۔ وہ کبھی ایک دوسرے کا احتساب نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی کرپشن اور مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔‘‘
اگر آپ سراج الحق صاحب کے بیان پر ذرا غور کریں تو اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستانی نظام کی خرابی کی‘ سراج صاحب نے جامع لفظوں میں نشاندہی کر دی ہے۔ جمہوریت کے نام پہ جو ڈرامہ اور کرپشن کا جو بازار پاکستان میں لگا ہوا ہے اور جمہوریت کے نام پر ہی جس طرح موروثی سیاست، اقربا پروری کے خنجروں سے پاکستان اور پاکستانیوں کا وجود لہو لہان ہے‘ سراج صاحب نے چند لفظوں میں اس نظام کی‘ جس کا وہ خود حصہ ہیں‘ خرابیوں کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کردی ہے۔ سراج صاحب کے اس بیان کو کالم کا موضوع بنانے کی دو وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ میں کئی دنوں سے جماعت اسلامی کے جماعت کے اندر الیکشن کی شاندار روایت پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا۔ جس طرح پابندی سے جماعت اسلامی میں برسوں سے الیکشن کا سلسلہ جاری ہے۔ خیبر تا سندھ اور ملک کے دیگر علاقوںمیں مقیم جماعت کے کارکن ایک مقصد ایک نظریے کے لیے ایک ہیں، اور ہر ممکنہ حد تک اقربا پروری اور موروثیت سے پاک ہیں اُن کی ان صفات کی یقینا تحسین کی جانی چاہیے۔ ان کے نظریے سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو مگر ان کے جمہوری رویے سے کوئی کیسے نظر پھیر سکتا ہے۔ دیگر موروثیت زدہ فیملی لمیٹڈ پارٹیاں تو اس سے شاید کبھی کچھ نہیں سیکھیں گی کہ ان کا بقا ہی جتھا بندی میں ہے۔ یقینا وہ (دیگر سیاسی جماعتیں) جماعت اسلامی کے اس باقاعدگی سے ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کو جس میں امیر کا انتخاب لڑنے والا خود کو اس منصب کے لیے پیش تک نہیں کرتا ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہوں گی۔ یقینا ایسا کوئی رویہ تو ان کو اپنی موت نظر آتا ہو گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ عوام کیوں جماعت اسلامی کے اس رویے کو نظر انداز کر دیتے ہیں آخر الیکشن میں جماعت کے اس جمہوری رویے کا فائدہ‘ خود جماعت کو کیوں نہیں ملتا۔ عوام بھی سوچیں جماعت بھی سوچے۔
جماعت اسلامی کا یہ رویہ بھی کہ منصب‘ طلب گار کو نہیں دیا جا ئے گا‘ یقینا درخشاں اسلامی روایات کی یاد دلاتا ہے۔ ایک مرتبہ کسی صوبے کی گورنری کیلئے ایک شخص کا نام حضرت عمرؓ کے ذہن میں تھا اس شخص نے ایک دن آکر آپؓ سے کہا کہ ''مجھے گورنر تعینات کر دیجئے‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں تجھے ہی گورنر بنانے والا تھا۔ لیکن اب نہیں بنائوں گا کیونکہ جو شخص خود کسی عہدہ کاخواہشمند ہو اسے اس عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہیے۔ نو منتخب امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کے بیان پر کالم لکھنے کی پہلی وجہ‘ جماعت اسلامی کو اس جمہوری عمل پر مبارکباد دینا تھا کہ جماعت کی اس انٹرا پارٹی الیکشن والی روایت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر چالاکیاں، چکربازیاں، ڈرامہ بازیاں نہیں کرتی بلکہ اس عمل میں اخلاص، دیانت داری اور میرٹ سختی سے ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہاں جماعت کے قائدین کو بھی خصوصاً نو منتخب قائدین کو بھی سر جوڑ کر ضرور اس پر غور کرنا چاہیے کہ اس پائے کی جمہوری پارٹی ہونے کے باوجود بھی جماعت کی عوام میں وہ پزیرائی کیوںنہیں ہو پاتی جو فیملی لمیٹڈ ٹائپ پارٹیوں کی ہوتی ہے۔؟ جن کا فخر سادگی، دیانتداری اور میرٹ نہیں۔ جن کے وجود پر جھوٹ، مکر، فریب، کرپشن،لوٹ مار کی سیاست کے داغوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
دوسری وجہ‘ سراج صاحب کا یہ بیان کہ کرپشن سے مال بنانا بھی دہشت گردی ہے۔ سراج صاحب کا یہ بیان بھی سونے میں تولنے کے لائق ہے۔ کیونکہ دہشت گردی یا انتہا پسندی بدامنی، غربت یہ سب کیا ہیں، یہ سب بیماریاں نہیں ہیں، یہ سب بیماریوں کے نتائج ہیں، علامات ہیں۔ بیماری کا خاتمہ ہی علاج کا مقصود ہوا کرتا ہے۔ بیماری کو جڑ سے پکڑا جائے تو علامات خود بخود ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ دہشت گردی، غربت، بدامنی، انتہا پسندی اور لاقانونیت اس وقت ہی جنم لیتی ہیں جب ریاست کا نظام کرپشن اور اقرباپروری کے باعث نااہل وخائن لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہو۔ کرپشن کیلئے موروثیت‘ اقرباء پروری اور نااہلی کا گٹھ جوڑ بنانا پڑتا ہے اور جب نااہل رشتہ دار، یا ناکارہ لوگ مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو نظام برباد ہو جاتا ہے اس بربادی کی کوکھ سے دہشت گردی، انتہا پسندی ، غربت، لاقانونیت، جہالت و بدامنی جنم لیتے ہیں۔
سراج الحق صاحب کا بیان غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہر سطح پر دبائو بڑھاناچاہیے کہ قانون سازی کی جائے اور کرپشن کی سزائیں‘ دہشت گردی کی سزائوں سے بھی سخت کی جائیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ موت سے بھی بڑھ کر اگر کوئی سخت سزا ہو سکتی ہے تو وہ کرپٹ لوگوں کو دینی چاہیے اور اس کیلئے قانون سازی کی جانی چاہیے۔کیونکہ ایک کرپٹ انسان کی کرپشن کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ کرپٹ شخص صرف کرپٹ نہیں ہوتا‘ درپردہ بے شمار انسانوں کا قاتل ہوتا ہے۔ کیسے؟ اس پہ تفصیل سے لکھوں گا۔ فی الحال اس سکینر سکینڈل پر غور کر لیں جس میں ایک شخص یا چند اشخاص مل کر اربوں روپے کھا گئے اور ناکارہ سکینروں کے باعث کروڑوں انسانوں کی زندگیاںخطرے میں ہیں۔ کیا یہ صرف کرپشن ہے یا سفاکانہ قتل؟