ہمارے ہی اخبار ''دنیا‘‘ میں جس خبر کو بیک پیج پر نمایاں کر کے چھاپا گیا‘ پہلے اس کی تفصیل پڑھ لیں کہ خبر ہی ایسی ہے کہ جس نے نہال کر دیا ہے۔ اور ایسی خبریں بار بار پڑھنے، پڑھانے، پھیلانے اور مشتہر کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ معاشرے کے اخلاق و کردار کا جو حال ہے اور جو بے حسی و لاپروائی انسانی جان کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر کوئی بریکنگ نیوز ہو تو ایسی ہی ہو اور سوشل میڈیا کی زبان میں ایسی خبروں کو تو وائرل کر دینا چاہیے کہ ہم بری خبروں، بری ویڈیوز کو تو بہت شوق سے وائرل کرتے ہیں مگر سچ پوچھیں تو خیر کی خبر ہمارے لیے بھی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو شاید خیر کی خبریں بھی ہم سے روٹھی روٹھی رہتی ہیں کہ جہاں شر کی پذیرائی ہو، خیر کی قدر نہ ہو اس معاشرے کو خیر، خیر باد نہ کہے تو کیا کرے۔
ہمارے اخبار کے مطابق ریاض سے خبر آئی ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز آل الشیخ نے سڑکوں پر لگے ٹریفک کے سرخ اشارے توڑنے والے ڈرائیوروں کے خلاف ایک مرتبہ پھر فتویٰ جاری کیا اور کہا ہے کہ ایسا کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔ العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق مفتی اعظم نے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ ٹریفک قوانین کی اس طرح کی خلاف ورزی گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں قرآن مجید کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے جس کا مفہوم اس طرح ہے: 'جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے ایک شخص کو بچایا، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا‘۔ انہوں نے 2010ء میں بھی اسی قسم کا ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''جو کوئی بھی ٹریفک قانون کی اس طرح کی خلاف ورزی کے ذریعے کسی کی موت کا موجب بنتا ہے تو وہ قتل عمد کا مجرم گردانا جائے گا‘‘۔ یہ تھی وہ خبر جس نے مجھے نہال اور سرشار کر دیا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل بھی جب سعودی عالم کا ''ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال حرام ہے‘‘ والا فتویٰ سامنے آیا تھا تو راقم نے 'حادثہ یا قتل‘ اور 'فتویِٰ دل‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں عرض کیا تھا: ''مجھے لگتا ہے کہ محراب و منبر نے پچھلے کچھ عرصے سے معاشرے اور زمانے میں ہونے والی جدید تبدیلیوں کے ان پہلوئوں کو نظر انداز کیا ہوا ہے اور ان حوالوں سے مذہب کی روشنی میں جو رہنمائی مسلمانوں کو فراہم کی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ اس پر کام کرنے کی ضرورت تھی اور ہے کیونکہ مومن ہمیشہ اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس فتوے کے حوالے سے بھی نہ صرف عوام الناس کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کیوں گناہ ہے بلکہ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کس نوعیت کا گناہ ہے؟ کبیرہ ہے یا صغیرہ؟ صغیرہ ہے تو صغیرہ کیوں ہے، کبیرہ ہے تو گناہِ کبیرہ کیوں ہے؟ ایک سوال یہاں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب ریسرچ یہ ثابت کر چکی ہے کہ ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ آج کے دور میں دورانِ ڈرائیونگ موبائل کا استعمال بن چکا ہے تو اس طے شدہ امر کے جاننے کے باوجود کوئی شخص دورانِ ڈرائیونگ فون پر کسی دوست سے ٹھٹھا کرتے ہوئے یا اپنی اہلیہ سے دل لگی کرتے ہوئے یا اپنے بچوں سے گپ شپ کرتے ہوئے یا آفس کے بارے میں کوئی ہدایت دیتے ہوئے ہی سہی اگرکسی شخص کو ہٹ کر دیتا ہے اور وہ شخص ساری عمرکے لیے معذور ہو جاتا ہے یا اس کی جان چلی جاتی ہے، ایک گھرانہ اجڑ جاتا ہے یا ایک انسان ساری زندگی کے لیے بستر سے لگ جاتا ہے، چلنے پھرنے کے لائق نہیں رہتا تو کیا یہ صغیرہ گناہ ہو گا یا کبیرہ؟ اور کیا یہ جاننے کے باوجود بھی کہ دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال کے باعث ایکسیڈنٹ کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے، اگر دوران ڈرائیونگ موبائل سنتے ہوئے ایکسیڈنٹ سے کسی کی جان چلی جائے تو یہ حادثہ ہو گا یا قتل؟‘‘
اہل محراب و منبر لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ ہسپتال کے آگے ہارن بجانے سے لے کر گھر میں کم سن ملازم رکھنے تک، وہ ڈور جس سے بچوں کی گردنیں کٹ کر باپوں کی گودوں میں گر جاتی ہیں اور ہوائی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات ہمیں کیا سکھاتی ہیں۔
محترم مفتیانِ دین کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک فتویٰ قارئین جب چاہیں میرے آقاؐ سرکارِ دو عالمﷺ کی ایک حدیث کی روشنی میں اپنے دل سے بھی لے سکتے ہیں اور اسلام کی روشنی میں ہر دل کا فتویٰ وہی ہو گا کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ چلتے چلتے ہمیشہ قائم رہنے والی کتابِ ہدایت پھر یاد آئی کہ 'جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا پوری انسانیت کی جان بچائی، جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا‘ تو اس آیت کی روشنی میں کم از کم میرے نزدیک موبائل فون سنتے ہوئے دوران ڈرائیونگ کسی کو مار دینا حادثہ نہیں ہے قتل ہی ہے۔ باقی افضل وہی ہے جو مفتیانِ دین فرمائیں۔
آخر میں قارئین سے شیئر کرتا چلوں کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہر سال تقریباً تیس ہزار کے قریب پاکستانی ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ صرف 2010 ء میں بارہ ہزار پاکستانی موٹر سائیکل سوار ٹریفک حادثات میں اپنی جان سے گئے۔ ذہین و باخبر قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دہشت گردی سے پچھلے دس سال میں جتنے پاکستانی اللہ کو پیارے ہوئے اتنے صرف دو سال میں ٹریفک حادثات کی نذر ہو گئے۔ صرف ریسکیو 1122 پنجاب کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پچھلے آٹھ نو سالوں میں صرف پنجاب میں ہزاروں لوگ اپنی جان سے گئے۔ صرف پنجاب میں ریسکیو 1122 کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے نو سالوں میں تقریباً سات لاکھ کے قریب افراد ٹریفک حادثات میں متاثر ہوئے۔ ٹریفک حادثات میں جو اپنی جان سے چلے جاتے ہیں اور تقریباً لاکھوں کی تعداد میں ہر سال جو لوگ پاکستان میں معذور ہوتے ہیں اس سے مختلف خاندانوں پر جو مالی بوجھ پڑتا ہے، جو انسانی المیہ جنم لیتا ہے، قارئین اس پر ضرور غور فرمائیں۔ اللہ پاک ہر پاکستانی کو ہر اس نام نہاد مہذب دہشت گرد سے محفوظ رکھے جو ٹریفک میں غفلت یا قانون شکنی کے باعث لوگوں کے قتل کا باعث بنتا ہے۔