فرمان ہے کہ ''سب سے بُری عادت وہ ہے جس کا انسان کو ادراک نہ ہو‘‘ کہ یقیناً جب تک کسی عیب، کمزوری، کجی یا خامی کا احساس‘ ادراک و شعور ہی نہ ہو گا تو لوگ حالتِ انکار میں رہیں گے‘ State of Denial میں اِدھر اُدھر ٹکریں مارتے ہوئے خود کو درست سمجھتے ہوئے نرگسیت میں مبتلا رہیں گے اور زمانہ انہیں روند کر گزرتا رہے گا اور اس انجام پہ فرد ہو یا قوم خود ترحمی کا شکار رہے گی۔ یہ جو اپنی کوتاہیوں‘ غلطیوں پہ ہر وقت اغیار کی سازشوں کا لیبل لگا کر خود کو معصوم اور ہر ذمہ داری سے بری الذمہ کرنے کی روایت ہمارے ہاں پائی جاتی ہے یہ خود ترحمی ہی کی ایک قسم ہوا کرتی ہے۔ چاہیں تو کسی ماہر نفسیات سے اس بارے میں گفتگو کر کے دیکھ لیں۔
علامہ کی جواب شکوہ مجھے ہمیشہ اسی لیے بہت ہانٹ کرتی ہے کہ علامہ اس شہرہ آفاق نظم میں ان تمام کمزوریوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور عیوب کی جانب اشارہ کرتے ہیں جن کا ادراک اور پھر درستی ہی کسی فرد یا قوم کو دوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑا کر سکتی ہے۔ علامہ کی برسی پر انہیں یاد کرنے کا اس سے بہتر کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ علامہ کی درد مندی و تاریخی شعور میں ڈوبی اس نظم پہ بحیثیت فرد و معاشرہ ہم غور کریں۔ اس طرح شاید ''ثریا سے زمین پہ جو آسمان نے ہم کو دے مارا ہے‘‘ ہم دوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔
خاص طور پر وہ اشعار درج کروں گا‘ جن کے بارے میں اندھوں کو بھی ادراک ہو گا کہ مرض ہم میں کس درجے کا پایا جاتا ہے۔ پھر وہی بات کہ مرض کا ادراک ہو گا تبھی علاج کا سفر شروع ہو پائے گا۔
انفرادی زندگیاں، فرد، معاشرہ، میڈیا، لیڈران خصوصاً سیاستدان، مقتدر ادارے ان کے آپس میں رویے اور کارکردگی، ذرا ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر جواب شکوہ کے شعروں پہ غور کرتے چلے جائیں‘ عقدے اور گرہیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی یا کم ازکم گرہیں کہاں کہاں لگی ہیں اور کیسے کیسے کھل سکتی ہیں یہ ضرور منکشف ہوتا چلا جائے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اندھیری رات میں بجلی کا کوندا کافی دور تک رستہ دکھا دیا کرتا ہے اگر کسی نے آنکھیں بند نہ کی ہوں تو اس روشنی کے باعث گُھپ اندھیروں میں بھی منزل پا سکتا ہے۔
میڈیا، صحافت، دانش ور، چیختے چنگھاڑتے لڑتے جھگڑے ٹاک شوز، دلیل، احترام، درد مندی سے خالی ریٹنگ کے لیے ہر عقیدے، ہر روایت کو مسل کچل دینے والے ہم اور علامہ کے اشعار... فرمایا...
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے!
عالمِ کیف ہے دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
ہم اپنے آپ کو جتنا چاہے طرم خان سمجھتے رہیں‘ حقیقت وہی ہے جو علامہ نے بیان کر دی ہے اور ساتھ ساتھ اسلاف اور ماضی پہ فخر کرتے رہنے پہ بھی تنقید کی ہے۔ گویا علامہ صاف کہہ رہے ہیں کہ اب خود بھی کچھ کر کے دکھائو میاں... فرمایا...
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
ایک وجہ اور ہماری پستی کی فرقہ پرستی و لسانی و آپسی نفاق ہے جو برادری ازم، ادارہ ازم، زبان، نسل، عقیدہ الغرض یہ ہر سطح پر ہم میں پایا جاتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں ...
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اشرافیہ جس طرح پروٹوکول سے لے کر کئی کئی مِلوں کی ملکیت انجوائے کرتی ہے دوسری جانب تھر سے روز فاقے سے مرتے ہوئے بچوں اور انسانوں کی خبریں آتی ہیں۔ اس پہ ذرا علامہ کے یہ اشعار دیکھیے...
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب
اُمرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملتِ بیضا غربا کے دم سے
آخر میں بس اتنا ہی شیئر کرتا چلوں کہ حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے نام نہاد پروٹوکول اور حفاظت کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ مگر 21 اپریل 2014 ء کو علامہ اقبال کی 76 ویں برسی پر ان کا مزار ان سے محبت کرنے والے پاکستانیوں کے لیے بند تھا۔ 21 اپریل کو ان کے مزار پہ ان کی 76ویں برسی کی تقریب منعقد نہیں ہو سکی جب کہ پورے ملک میں حکمرانوں اور ان کے اہلِ خانہ کو ٹیکس دہندگان کے کروڑوں روپے خرچ کر کے ہزاروں محافظوں کا پروٹوکول دستیاب تھا جب کہ ان میں سے بیشتر اقبال کی خاکِ پا بھی نہیں۔ یونہی تو نہیں اقبال نے فرمایا تھا ...
بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ کی برسی پر علامہ سے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ آج ہم بہت شرمندہ ہیں!