لیاری (آخری حصہ)

میں نے پچھلے کالم میں لیاری کے سفر کی روداد بیان کی تھی، لیاری کی گلیوں، سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کا ایک جائزہ بھی پیش کیا تھا اور لیاری میں جو عمومی طور پر ایک خوف کی فضا پائی جاتی ہے ، ایک بے چینی جو لیاری کے عوام کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے ،اس سے اپنے قارئین کو آگاہ کیا تھا اور کس طرح ہم عزیر بلوچ تک پہنچے وہ ساری روداد بھی اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کی تھی۔
جب ہم کئی تنگ گلیوں سے گزر کر عزیر بلوچ تک پہنچے تو وہ ایک کارکن کی برسی پر تبلیغی جماعت کے کسی مولانا کا وعظ سن رہا تھا۔ تقریباً پونے گھنٹے کے بعد وعظ ختم ہوا اور وہاں سے روانگی کا وقت آیا تو عزیر کے قریبی مسلح ساتھیوں نے اسے پچھلے راستے سے چلنے کا کہا مگر عزیر بلوچ نے کہا ''میں عوامی آدمی ہو بابا، اپنے لوگوں میں سے گزر کر جائوں گا‘‘ ۔اس کے بعد عزیر بلوچ وہاں موجود تقریباً دو ہزار لوگوں کے درمیان سے ، لوگوں سے ہاتھ ملاتا، کہیں کہیں رک کر باتیں کرتا اپنے ٹھکانے کی طرف روانہ ہوا۔اس اثناء میں اس کے گارڈز ماہر سپاہیوں اور جنگجوئوں کی طرح اپنے لیڈر کے گرد گھیرا کیے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور اسے پروٹیکٹ کر رہے تھے۔
مزید کئی جگہ رُکنے کے بعد ہم عزیر بلوچ کے ہیڈکوارٹر پہنچ گئے جو یقینا کالعدم پیپلز امن کمیٹی والوں کا ہیڈ کوارٹر تھا ۔چند لمحوں بعد عزیر بلوچ کمرے میں آگیا اور میرے سوالات کے خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے جوابات دینا شروع کیے۔
میں نے عزیر بلوچ سے پوچھا کہ ''آپ پر الزامات ہیں کہ آپ لوگوں کو اغواء کر کے تاوان کے لیے لیاری لے آتے ہیں اور یہ سلسلہ اب صرف لیاری کے ارد گرد کے علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے کراچی میں پھیل گیا ہے‘‘ عزیر بلوچ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ''آپ پورے لیاری میں گھوم کر دیکھ لیں،میں اور میرے لوگ اس قسم کی کسی کارروائی میں کبھی ملوث نہیں رہے ...‘‘
میرے پوچھنے پرکہ ''لیاری کا اصل مسئلہ کیا ہے‘‘ عزیر بلوچ نے جواب دیا ''لیاری کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سارے عوامی نمائندوں نے اپنے اپنے پیٹ بھرے ہیں اور لیاری کو ملنے والا بجٹ ہڑپ کر گئے ہیں۔ ہم لیاری کے لیے سکول مانگتے ہیں، صاف پانی مانگتے ہیں، سڑکیں مانگتے ہیں، ہسپتال مانگتے ہیں، اسی لیے لیاری کے لوگ میرے ساتھ ہیں اور حکمران میرے دشمن ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کو چاہے وہ کوئی بھی ہو،اب لیاری کے لوگ لیاری میں گھسنے بھی نہیں دیں گے۔‘‘ عزیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ''میں نے یہاں یو ایس ایڈ کے ذریعے فلاحی کام کروائے، کچھ سکولوں کو ٹیچرز مہیا کیے اس لیے لوگ میری بات سنتے ہیں اور مجھے اس علاقے کا لیڈر مانتے ہیں‘‘ میرے اس سوال پر کہ یہاں پولیس داخل نہیں ہو پاتی اور آپ نے ایک چھوٹی سی ریاست، ریاستِ پاکستان کے اندر بنا لی ہے عزیر بلوچ نے جواب دیا ''جب پولیس اور عدالتیں اپنا کام نہیں کریں گی تو لوگوں کو اپنے مسائل کو حل تو کرنا ہے‘‘ میں نے پوچھا ''عوام کے اختلافات اور جھگڑوں کے فیصلے کیسے ہوتے ہیں لیاری میں؟‘‘ عزیر بلوچ نے بتلایا کہ ''تقریباً 150 بزرگوں کی ایک کونسل ہے جو لوگوں کے مسائل سنتی ہے اور فیصلے کرتی ہے‘‘ میں نے پوچھا ''اگر ان کے فیصلوں سے کسی کو اختلاف ہو تو کیا ہوتا ہے‘‘ عزیر نے کہا ''پھر وہ میرے پاس آتے ہیں اور میرا فیصلہ فائنل فیصلہ ہوتا ہے‘‘ میں نے کہا کہ ''اس کا مطلب ہے آپ لیاری کے سب سے بااختیار شخص ہوئے ‘‘جس کے جواب میں عزیر بلوچ مسکرایا اور کہا ''ہاں یہاں آخری فیصلہ ہمارا ہی ہوتا ہے...‘‘
بی ایل اے، لشکر طیبہ اور طالبان وغیرہ سے رابطوں کی عزیر بلوچ نے سختی سے تردید کی بلکہ اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھ کر اس بات کی تصدیق چاہی کہ ''بی ایل اے‘‘ والے تو عزیر بلوچ کو اتنا ناپسند کرتے ہیں کہ دھمکی آمیز خطوط موصول ہوتے رہے ہیں ۔عزیر بلوچ نے کھل کر اور صاف کہا کہ وہ وفاقِ پاکستان کا شدید حمایتی ہے۔
عزیر بلوچ نے کہا کہ ''جو لیاری کیلئے کام کرے گا اور لیاری میں ترقیاتی کام کروائے گا وہ اور لیاری کے عوام اس جماعت کی حمایت کریں گے چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ یہاں تک کہ لیاری کی فلاح کیلئے وہ ایم کیو ایم سے بھی بات چیت کرنے کو بھی تیار ہے‘‘ لیکن عزیر کی باتوں میں پیپلز پارٹی کیلئے نرم گوشہ اور ایم کیو ایم کے نام پر ماتھے پر تیوریاں صاف محسوس کی جا سکتی تھیں۔
عزیر بلوچ کی ساری گفتگو ، باڈی لینگویج انڈر ورلڈ کے ڈان یا گینگ لیڈر کی گفتگو نہیں تھی بلکہ ایک ایسے طاقتور شخص کی گفتگو تھی جو سیاست میں دلچسپی رکھتا ہو اور مستقبل میں اپنی شناخت انڈرورلڈ کے لیڈر کے بجائے ایک سیاسی لیڈر کے طور پر کروانا چاہتا ہو۔
جو کچھ اس وقت عزیر بلوچ سوچ رہا تھا یا مستقبل میں جو سیاسی کردار اپنانا چاہ رہا تھا، وہ کوئی انوکھا نہیں تھا۔کراچی کے رحمن ڈکیت سے لے کر اٹلی، نیویارک، بھارت ہر جگہ انڈرورلڈ اور سیاست کے گٹھ جوڑ سے ایسی ہی کہانیاں اور کہانیوں میں ایسے ہی موڑ جنم لیا کرتے ہیں۔ سیاست دان ''جن‘‘ کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کرتے ہیں، ایک دن ''وہ‘‘ سیانے ہو کر کندھے پر رکھی طاقت اور بندوق اپنے ہاتھ میں لے لیا کرتے ہیں اور اس کا پہلا نشانہ وہ سیاست دان ہی ہوا کرتے ہیں جو ماضی میں اِن کو اوراِن کے کندھوں کو استعمال کرتے رہے ہوں، یہی رحمن ڈکیت کے معاملے میں ہوا اور یہی عزیر بلوچ کے معاملے میں ہو رہا ہے۔ 
مستقبل میں یا تو سیاستدان عزیر بلوچ کو انڈرورلڈ کے ڈان کے بجائے ایک سیاسی لیڈر کے طور پر تسلیم کر لیں گے یا عزیر بلوچ بھی رحمن ڈکیت کی طرح... !
کون سوچ سکتا تھا کہ جو رحمن ڈکیت محترمہ بے نظیر کی گاڑی ڈرائیو کرتا ہو،بعد میں ذوالفقار مرزا اس کو قتل کروانے کا دعویٰ کریں گے... مگر یہی سچ ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں سیاست اور انڈرورلڈ میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوا کرتا ،دونوں سفاک ہوتے ہیں ،دونوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ع 
سب گندا ہے، پر دھندا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں