سپریم کورٹ میں التوا دینے کا تصور ختم سمجھا جائے، بہت زیادہ کیسز ہیں، ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس، اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ: مقدمات میں اب تاریخیں نہیں ملیں گی: چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں التوا دینے کا تصور ختم سمجھا جائے، بہت زیادہ کیسز ہیں، ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس، اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ: مقدمات میں اب تاریخیں نہیں ملیں گی: چیف جسٹس

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر، نیوز ایجنسیاں)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا مقدمات میں اب تاریخیں نہیں ملیں گی، سپریم کورٹ میں التوا دینے کا تصور ختم سمجھا جائے، بہت زیادہ کیسز ہیں، ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس، اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ ہوگا۔

 کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانونی ادارہ ہے ، وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے زمین منتقلی پر پابندی عائد کرنے والا،چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں زمین کے تنازع سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل کی طرف سے التوا کی استدعا پر ان کی سرزنش کرتے ہوئے استدعا مسترد کردی ،چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دلائل بھی ایک زبان میں دیں، اپنی اردو بہتر کریں یا انگریزی، اپنے ذہن سے یہ بات نکال دیں کہ اب مقدمات میں التوا ملے گا،سپریم کورٹ میں اب سے کیسز میں التوا دینے کا تصور ختم سمجھا جائے ،اپنے ذہن سے یہ تصور ہی نکال دیں کہ سپریم کورٹ میں جاکر تاریخ لیں گے ، سپریم کورٹ میں بہت زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں، کسی بھی کیس میں اب ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس جاری ہو گا اور اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ ہو گا، اس کیس کے توسط سے یہ پیغام سب کیلئے ہے کہ اب مقدمات میں التوا نہیں ملے گا، یہ باقی عدالتوں میں ہوتا ہے کہ دستاویزات جمع کرانے کا وقت دیا جائے ، سپریم کورٹ آخری عدالت ہے جہاں تمام مقدمات کے فیصلوں کا ریکارڈ پہلے سے ہوتا ہے ، سپریم کورٹ میں کیس آتا ہے تو سارے کاغذ پورے ہونے چاہئیں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے کوئٹہ سہراب رنگ روڈ کی زمین حوالگی کے معاہدے کیخلاف درخواست پر سماعت کر تے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد کی درخواست خارج کر دی،چیف جسٹس نے وکیل کے آہستہ بولنے اور اردو انگریزی ملا کر بولنے پر سرزنش کر تے ہوئے کہاوکیل کی آواز نہ آئے تو اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے ،اونچی آواز میں دلائل دیں،وکیل درخواست گزار میر افضل ملک نے کہا معاہدہ ہونے کے بعد وزیراعلیٰ نے زمین منتقلی پر بین لگا دی،چیف جسٹس نے کہا یہ بین کیا ہوتا ہے اس کا ترجمہ کیا ہے ؟وکیل جواب دینے سے قاصر رہے تا ہم وکیل نے پھر کہا کہ معاہدے کی ڈیٹ سے اب تک سہراب رنگ روڈ سے متصل زمین تاحال خالی ہے ،چیف جسٹس نے کہا یہ ڈیٹ ہوتی ہے یا تاریخ؟ایک زبان میں دلائل دیں ایسے تو سمجھ ہی نہیں آتی،آپ 35 سال بعد عدالت آگئے کہ معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا،یہ نہیں ہو سکتا کہ درخواست گزار کے دوست حکومت یا انتظامی عہدوں پر آجائیں تو دعویٰ دائر کر دو،وکیل نے کہا میں چاہتا ہوں میری باقی زمین بھی کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی لے لے ، وزیر اعلیٰ نے زمین کے تبادلے پر بین عائد کر رکھا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے زمین منتقلی پر پابندی عائد کرنے والا؟کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانونی طور پر قائم ادارہ ہے جس میں وزیراعلیٰ کا اختیار نہیں بنتا،آپ حاتم طائی مت بنیں ایسے تو بہت سے کھاتے کھل جائیں گے ،وکیل نے کہا عدالت کے سامنے حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے ، چیف جسٹس نے کہا آپ کے ذریعے سب کو پیغام ہے کہ اب کوئی التوا یا مہلت نہیں ملے گی، عدالت نے درخواست خارج کر دی ،کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے سہراب رنگ روڈ کیلئے درخواست گزاروں سے زمین حاصل کی تھی ،درخواست گزار نے رنگ روڈ سے بچ جانے والی زمین کا استعمال نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں ٹیکس سے متعلق ایک کیس میں چیف جسٹس نے کہا گزشتہ سال مارچ میں آپ کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی،کیوں نہ آپ کو جرمانہ عائد کیا جائے ،جس کے بعد عدالت نے وکیل درخواست گزار کو دس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کردیا اور ہدا یت کی کہ جرمانے کی رقم اپنی مرضی کے خیراتی ادارے میں جمع کروا کر رسید جمع کرائی جائے ، وکیل درخواست گزار نے کہا میں غلطی تسلیم کرتا ہوں،چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کیخلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اربوں روپے کے ٹیکس مقدمات ہم نے دبا کر رکھے ہیں،ٹیکس مقدمات میں آپ کی یہ حالت ہے کہ ڈیڑھ سال میں جواب تک جمع نہ کرایا جا سکا، ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے ٹیکس مقدمات عدالتوں میں پھنس جاتے ہیں، عدالت نے وکیل درخواست گزار کو تحریری جواب جمع کرانے کیلئے آخری مہلت دے دی اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

مزید براں چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے سیمنٹ کمپنی اور فلور ملز کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل پر سماعت کی، چیف جسٹس نے کہا آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ کوئی ایسا کیس نہیں سن سکتی جو کسی اور ماتحت عدالت یا فورم پر سنا جاسکتا ہو، ہائی کورٹ یہ نہیں کہہ سکتی کہ آجاؤ، آجاؤ ہم ہر معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔مدعا علیہان کے وکیل شہریارقصوری نے بتایا ان کے موکل کی فیکٹری سے انکم ٹیکس ایکٹ 1990کے سیکشن38کے تحت جولائی 2014سے جون2015تک کا ریکارڈ مانگا گیا تھا جو کہ غیر قانونی تھا، سیکشن38کے تحت ریکارڈ نہیں مانگاجاسکتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ اور مدعا علیہان کے وکیل مل کر معاملہ کو حل کرلیں،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نوٹس سیکشن انکم ٹیکس ایکٹ 1990کے سیکشن25کے تحت جاری کیا جانا چاہیے تھا، ہائی کورٹ نے بھی یہی کہا ہے کہ نیانوٹس جاری کریں،کمشنر ان لینڈریونیو پرانا نوٹس واپس لے کر نیا نوٹس جاری کردیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم حکم دے دیتے ہیں کہ ٹیکس اتھارٹیزٹیکس ایکٹ 1990کے سیکشن 25کے تحت نیا نوٹس جاری کریں اور اس کا قانون کے مطابق جواب دے دیا جائے ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی خاص مدت کاریکارڈ ہی طلب کیا جاسکتاہے توپھر ہم لکھ دیتے ہیں کہ اس کیس میں نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے ،اسی دوران جسٹس امین الدین خان نے مشورہ دیا کہ پہلے سے جاری نوٹس کو ہی انکم ٹیکس ایکٹ 1990کے سیکشن 25کے تحت تصور کر لیا جائے ، مدعا علیہ نمبر ایک کو سیکشن 38کے تحت جاری نوٹس کو سیکشن 25کے تحت جاری تصور کیا جائے ،وکیل شہریارقصوری نے اس پر اعتراض کیا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس میں تعصب والی کون سی بات ہے ،مدعاعلیہ کو جواب دینے کا موقع مل رہا ہے جو مانگا ہے کتابیں دیں،اس میں شرما کیوں رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم میں لکھوایا کہ آج سے تین ہفتے کے اندر جواب دیں، جواب دیناہے دیں نہیں دینا توکہیں آکر کتابیں دیکھ لیں،قانون کے مطابق معاملہ نمٹایاجائے ، چیف جسٹس کا حکم میں کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم میں مندرجہ بالاشرائط کے ساتھ ترمیم کردی گئی ہے اور درخواست منظور کی جاتی ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں