پٹرول7.45روپے لٹر مہنگا،نئے ٹیکسوں کیساتھ بجٹ آج سے نافذ

پٹرول7.45روپے لٹر مہنگا،نئے ٹیکسوں کیساتھ بجٹ آج سے نافذ

اسلام آباد(مدثر علی رانا )حکومت نے 15 روز کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ، صنعتوں کیلئے گیس کے نر خ بڑھانے کی بھی منظوری دیدی گئی ، پٹرول 7 روپے 45 پیسے ،ڈیزل 9 روپے 56 پیسے ، لائٹ ڈیزل 9 روپے 88 پیسے اورمٹی کے تیل کی قیمت میں 10 روپے 5 پیسے لٹر کا اضافہ کیا گیا ہے ۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق دوہفتوں کے دوران بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کارجحان رہا، اوگرا نے بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کے رجحان کے تناظر میں مقامی صارفین کیلئے قیمتوں کاتعین کیاہے ۔ پہلے سے عائد ٹیکسوں اورڈیوٹیز میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا اوروہ موجودہ شرح کے لحاظ سے برقراررہیں گے ، قیمتوں میں اضافہ کے بعد فی لیٹرپٹرول کی قیمت 265.61 روپے اورہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 277.45 روپے ہوگئی، نئی قیمتوں کااطلاق ہوگیا جو15 جولائی تک نافذ رہے گا ۔ علاوہ ازیں وزیرخزانہ محمداورنگزیب کی زیرصدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں جنرل انڈسٹری کیلئے گیس قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی گئی ۔ ذرائع وزارت توانائی کیمطابق آئی ایم ایف کیساتھ یہ پیشگی شرط تھی کہ کیپٹیو پاور پلانٹس(ایسے پاور پلانٹس جو صنعتکاروں نے اپنی انڈسٹری کیلئے خود لگا رکھے ہیں )کیلئے گیس مہنگی کی جائے گی، کیپٹیو پاور پلانٹس کیلئے گیس نرخوں میں اضافہ سے 92 ارب روپے کا ریونیو ملے گا، آئندہ مالی سال کے دوران سوئی سدرن اور سوئی نا ردرن کیلئے مجموعی طور پر تقریبا 900 ارب روپے کی ضروریات کا تخمینہ لگایا گیا۔

آئندہ مالی سال کے دوران سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کو 1025 ارب روپے ریونیو کا تخمینہ لگایا گیا جو ضروریات سے 133 ارب روپے سرپلس ہے ، آئندہ مالی سال سوئی سدرن کیلئے 364 اور سوئی ناردرن کیلئے 661 ارب روپے کا ریونیو تخمینہ لگایا گیا، ذرائع کے مطابق یکم جنوری 2025 سے دوبارہ نرخوں کا جائزہ لیکر قیمتوں میں ردوبدل کیا جائے گا، موجودہ سمری کیمطابق گیس کے نان پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے گیس نرخوں میں بھی ردوبدل کیا گیا ، ذرائع وزارت توانائی بتاتے ہیں کہ 1.5 ہیکٹو میٹر استعمال کرنے والوں کیلئے فی ایم ایم بی ٹی یو ریٹ 1550 سے کم کر کے 1450 مقرر کیا گیا جبکہ 2 ہیکٹو میٹر استعمال کرنے والوں کیلئے فی ایم ایم بی ٹی یو ریٹ 1950 سے کم کر کے 1900 مقرر کیا گیا ہے اور 3 ہیکٹو میٹر اور اس سے زیادہ گیس استعمال کرنے والے نان پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے ریٹ تبدیل نہیں کیے ، ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف 10 جولائی سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ چاہتا ہے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے گیس نرخوں کی سمری ای سی سی سے منظور ہو چکی اور جلد ہی بجلی ٹیرف کی قیمتوں میں اضافے کی پیشگی شرائط پر بھی عملدرآمد ہو گا، آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی مہنگی کرنے کیلئے نیپرا کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کیا جائے اور گیس نرخوں میں ردوبدل کیلئے اوگرا کے تعین کردہ ریٹس کی منظوری دی جائے ۔

آئی ایم ایف کیساتھ پیشگی شرائط پر عملدرآمد سے باقاعدہ آئی ایم ایف کو آگاہ کیا جائے گا کیونکہ آئی ایم ایف وفد کا جولائی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان آنے کا امکان ہے ۔ادھر صدر آصف زرداری نے فنانس ترمیمی بل 2024 کی منظوری دیدی۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے گزشتہ روز فنانس ترمیمی بل 2024 ایوان صدر کو بھجوایا گیا تھا۔ایوان صدر کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعلامیہ کے مطابق صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر آرٹیکل 75 کے تحت فنانس بل کی منظوری دی، فنانس بل 2024 آج سے نافذ العمل ہو گیاجس کے تحت رہائشی اور کمرشل عمارتوں کی تعمیر اور فروخت پر ٹیکس عائد کر دیا ہے جبکہ فارم ہاؤسز پر کیپٹل ویلیو ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا اور گاڑیوں کے انجن آئل پر بھی پانچ فیصد لیوی عائد کر دی گئی ہے ۔

ترامیم کے تحت ایک کروڑ روپے سالانہ آمدن پر 10 فیصد سرچارج عائد کر دیا گیا ہے جبکہ سول و فوجی ملازمین کو جائیداد پر ایڈوانس ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے ۔حکومت نے فنانس بل میں ترامیم کے ذریعے بیرون ملک سفر کے لیے ایئر ٹکٹس پر ٹیکس شرح میں اضافہ جبکہ ہائبرڈ گاڑیوں اور سولر پینل پر ٹیکس چھوٹ کی شرح کو برقرار رکھا ہے ۔ فنانس ترمیمی بل میں ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر 30 جون 2026 تک سیلز ٹیکس کی شرح کو ساڑھے آٹھ فیصد برقرار رکھا گیا ہے ۔ تاہم 1801 سی سی سے 2500 سی سی تک کی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس ساڑھے 12 فیصد کی شرح سے عائد ہو گا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس بل انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 236 سی میں ترمیم کرتے ہوئے غیر منقولہ جائیداد کی فروخت یا منتقلی پرعائد ایڈوانس ٹیکس سے شہدا کے لواحقین کے ساتھ ریٹائرڈ و حاضر سروس وفاقی و صوبائی سول اور فوجی ملازمین کو استثنیٰ دے دیا ہے ۔

جنگ میں زخمی ہونیوالے سول اور فوجی ملازمین کو بھی غیر منقولہ جائیداد کی فروخت یا منتقلی پر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ ایسوسی ایشن آف پرسنز یا غیر تنخواہ دار انفرادی طور پر ایک کروڑروپے سالانہ کی آمدن پر 10 فیصد سرچاج عائد کر دیا گیا ہے ۔ تاہم ایسوسی ایشن آف پرسن کی سالانہ 56 لاکھ روپے آمدن پر تجویز کیا گیا 45 فیصد انکم ٹیکس کم کر کے 40 فیصد کر دیا گیا ہے ۔فنانس بل میں مزید ترامیم کرتے ہوئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں سات ایف کی نئی شق متعارف کروا کر رہائشی، کمرشل اور دیگر عمارتوں کی تعمیر اور فروخت سے حاصل ہونیوالی آمدن پر ٹیکس عائد کر دیا ہے ۔انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی نئی شق سات ایف کے تحت اب کمرشل اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کی صورت 10 فیصد ٹیکس دینا ہو گا جبکہ ان عمارتوں کی فروخت سے حاصل ہونیوالی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے ۔رہائشی، کمرشل ، پلاٹوں اور دیگر عمارتوں کی تعمیر اور فروخت پر 12 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے ۔

ٹیکس دہندہ کو عمارتوں کی تعمیر میں کی جانے والی سرمایہ کاری کی رقم کا سورس بھی ایف بی آر کو بتانا ہو گا۔ افغانستان سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس بھی عائد کر دیا گیا ہے ۔فائلرز کو جائیداد کی الاٹمنٹ یا منتقلی پر تین فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ادا کرنا ہو گی جبکہ نان فائلرز کے لیے یہ شرح پانچ فیصد کر دی گئی ہے ۔وفاقی حکومت نے ترمیمی فنانس بل 2024 میں سٹیشنری پر دی گئی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرتے ہوئے 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی ہے ۔ کلر پنسل کے سیٹ، مختلف اِنکس، ای ریزر، پنسل، شاپنرز پر سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ موبائل فون کے پرزہ جات کی درآمد پر 18 فیصد اور مقامی سطح پر تیار ہونے والے موبائل فون پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے ۔500 ڈالر سے زائد مالیت کے موبائل فون کی درآمد پر 25 فیصد، پرزہ جات کی درآمد پر 18 فیصد اور مقامی تیار ہونیوالے موبائل فون پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ نزلہ، زکام اور کھانسی کے جوشاندے پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے ۔ ہربل معجون، مربے اور سفوف پر 18 فیصد سیلز ٹیکس جبکہ یکم جولائی سے مختلف ہربل شربت اور گولیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہو گا۔علاوہ ازیں ہومیو پیتھک کی سینکڑوں ادویات پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہو گیا ہے ۔

اسلام آباد(نامہ نگار ، اے پی پی)وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمداورنگزیب نے کہاہے کہ کلی معیشت کی صورتحال مستحکم ہے ، حکومتی اقدامات سے عالمی برادری اوربین الاقوامی اداروں کااعتماد بحال ہوا، معاشی استحکام کوتسلسل کی طرف لیکرجائیں گے ، 42ہزار ری ٹیلرز کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جن پرآج سے ٹیکسوں کااطلاق ہوگا، نان فائلرز کی اختراع کوختم کریں گے ، ڈی ایل ٹی ایل کی ادائیگی کیلئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں، ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں لائیں گے تومسائل جاری رہیں گے ، آئی ایم ایف کے ساتھ نئے اورطویل پروگرام پرمثبت اوردرست سمت میں پیش رفت ہورہی ہے ،نان فائلر کو سزا دینگے ، امریکی قرارداد آئی ایم ایف پروگرام پر اثر انداز نہیں ہوگی ۔ اتوار کویہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اہم اقتصادی اشاریوں کے ساتھ پاکستان کامالی سال اختتام پذیرہورہاہے ، کلی معیشت کی صورتحال مستحکم ہے ، مالی خسارہ اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں کمی آئی ہے ، پاکستان کی کرنسی مستحکم ہے ، مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے 38 فیصدسے کم ہوکر 12فیصد کی سطح پرآگئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ حکومتی اقدامات سے عالمی برادری اوربین الاقوامی اداروں کااعتماد بحال ہواہے ، عالمی بینک نے داسوڈیم کیلئے ایک ارب ڈالر کی منظوری دیدی ہے ، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے پی ٹی سی ایل کیلئے 400 ملین ڈالر معاونت کااعلان کیاہے اوریہ ہمیں مالی سال 25-2024 میں ملیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں 9.3ٹریلین وصولیوں کی صورت میں محصولات میں 30 فیصد کااضافہ ممکن کردکھایا، ہم نے اس معاشی استحکام کوتسلسل کی طرف لے جانا ہے اوراس کیلئے رہنما اصول طے کرلئے گئے ہیں۔سندھ کی طرح وفاق میں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ لانا ہو گی، وزیرخزانہ نے کہاکہ محصولات اورمعیشت میں لیکجز، کرپشن اورچوری کوختم کریں گے اور اس حوالہ سے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کاعمل جاری ہے جس کامقصد کارکردگی میں بہتری اور شفافیت کو فروغ دینا ہے ، ڈیجیٹلائزیشن سے انسانی مداخلت کم سے کم ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلاٹزیشن سے شفافیت آئیگی کیونکہ اس وقت صرف سیلزٹیکس میں 750 ارب کی لیکجز موجود ہے اوریہ ڈیجیٹلائزیشن سے ہی ختم ہوسکتی ہے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ تاجردوست سکیم کے تحت 42 ہزار ری ٹیلرز کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جن پرجولائی سے ٹیکسوں کااطلاق ہوگا، رئیل اسٹیٹ میں پہلے طلب کی سائیڈ پرٹیکس لاگو تھا اوراب سپلائی سائیڈ کوٹیکس نیٹ میں لایاگیاہے ،نان فائلرز کی اختراع کوختم کرنا ہے ، نان فائلز کے حوالہ سے بجٹ میں تادیبی اقدامات کئے گئے ہیں، میں بڑا واضح ہوں کہ جلد یابدیر یہ اختراع ختم ہوگی۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومتی اخراجات اور مصارف کو معقول بنایا جارہاہے ، وزرا تنخواہ نہیں لے رہے اور ہم اپنے یوٹیلیٹی بلز بھی خود اداکررہے ہیں۔بعض اخراجات صوبے خود اٹھائیں ، مالی گنجائش ہوئی توتنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینگے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پنشن اصلاحات کے حوالہ سے ای سی سی نے اہم قدم اٹھایاہے ،سول ملازمین پراس کااطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوگا جبکہ ملازمت کے علیحدہ سٹرکچر ہونے کی وجہ سے مسلح افواج پراس کااطلاق آئندہ مالی سال سے ہوگا، ان اصلاحات کے حوالہ سے حکومت بہت واضح ہے اوراس عمل کوآگے لیکر جائیں گے ، وزارتوں کوضم، منتقل یابند کرنے کے حوالہ سے اقدامات بھی جاری رہیں گے اوراس میں زیادہ وقت نہیں لیں گے ، جلد ہی وزیراعظم اس حوالہ سے قوم کو اعتماد میں لیں گے ، پی ڈبلیوڈی کے حوالہ سے فیصلہ کیا گیاہے ۔ ملازمین کے حوالہ سے فیصلہ کیاگیاہے کہ ان کو کو رنگ فینس دیا جائیگا۔ علاوہ ازیں قانونی اموراوراثاثوں کی صورتحال کوبھی دیکھا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح وزیراعظم نے کہاہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ ہماراآخری پروگرام ہوگا، حکومت برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کرے گی، برآمدات پرنہیں بلکہ برآمدات پرحاصل منافع پرٹیکس ہوگا، اگربرآمدکنندہ کو منافع نہیں ہوگا تواس سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائیگا، اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ سیلزٹیکس ریٹرن میں تاخیرنہیں ہوگی ،آئندہ دو تین روز میں تمام سیلزٹیکس ریٹرن کی ادائیگی کردی جائیگی، برآمدکنندگان کے کے ڈی ایل ٹی ایل بھی جلد اداہوں گے اوراس حوالہ سے بجٹ میں فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔وزیرخزانہ نے واضح طورپر کہا کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں اضافہ کا اطلاق نہیں ہوگا، یہ ایک یہ سیلینگ ہے ، پہلے بجٹ میں اس کو 80 روپے فی لیٹرکرنے کی تجویز تھی تاہم اب اسے 70 روپے کردیاگیاہے ۔

انہوں نے کہاکہ ملکی معاشی استحکام اورپائیدارنمومیں صوبوں کا حصہ اہمیت کاحامل ہے ، ہم صوبوں کے ساتھ بات چیت کریں گے ، صوبوں کواخراجات میں اپنا حصہ ڈالنا چا ہئے ۔آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے مثبت پیش رفت ہورہی ہے ، نیاپروگرام بڑا اورطویل ہوگا، بجٹ کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری مشاورت ہوئی تھی، ہم نے پروگرام کوآگے لے جانا ہے ،ہم استحکام کوچھوڑ کرنمو کی طرف نہیں جاسکتے کیونکہ ماضی میں اس سے مسائل پیداہوتے رہے ،ہماری معیشت درآمدی ہے اورہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ اضافی ٹیکسوں سے مسائل ہیں مگراس کا تدارک بھی کرنا ہے ، برآمدکنندگان کواگرنارمل ٹیکس رجیم میں لایاگیاہے تو اس کے ساتھ ساتھ انہیں سہولیات اورترغیبات بھی دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انفورسمنٹ کے اقدامات سے بدعنوانی کے خاتمہ کا عمل جاری رہے گا، اس وقت ٹیکس سے متعلق مقدمات کا حجم 2700 ارب روپے ہے جوپھنسے ہوئے ہیں۔ اضافی ٹیکسوں کازیادہ بوجھ نہیں ہے ، جب مالی گنجائش ہوگی توپہلا ریلیف تنخواہ دار طبقے کوملے گا۔پی ڈبلیوڈی کے ملازمین سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ ادارے میں 6100 ملازمین ہیں، مختلف ملازمین وہ کام جاری رکھیں گے ، ملازمین کی رننگ فینسنگ ہوگی اوران کے حقوق کے حوالہ سے اقدامات کئے جائیں گے ،،زیادہ ترملازمین کورکھا جائیگا۔ توانائی کے شعبہ سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ بجلی چوری اورتوانائی کے شعبہ میں اصلاحات پراویس لغاری بہت کام کررہے ہیں، ڈسکوز کے بورڈ میں نجی شعبہ کو لایا جارہاہے ،اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں لائیں گے تومسائل جاری رہیں گے ، 600 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اضافی ریونیواقدامات سے اگلے سال بھی ہمیں فائدہ ہوگا ، اگلے دوہفتے میں ری ٹیلرزسکیم کو موڈیفائی کریں گے ، یکم جولائی سے اس کا اطلاق ہوگا ، ری ٹیل سیکٹر کے ساتھ ہماری بات چیت بھی جاری ہے ۔

پنشن اصلاحات سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا کہ ہم پرانے طریقوں کوجاری رکھیں، مسلح افواج کا سروس سٹرکچر الگ ہے اس لئے ایک سال کی مدت دی گئی ہے ،علیحدہ سٹرکچر ہونے کی وجہ سے مسلح افواج پراطلاق آئندہ مالی سال سے ہوگا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ نان فائلرز کے لئے سزا تک جا رہے ہیں جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھا ہے لیکن جیسے ہی کوئی مالی گنجائش ہوئی تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر زیادہ سے زیادہ لیوی ستر روپے ہوگی جس کا اطلاق آج سے نہیں ہو رہا،محمد اورنگزیب نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں مثبت پیشرفت ہو رہی ہے ، جولائی میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی امید ہے ، وزیر خزانہ نے کہا کہ مائیکرو اکنامک اسٹیبلٹی لڑکھڑا گئی تو معیشت کو بڑا نقصان ہوگا، ہماری خواہش ہے یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو، امریکی قرارداد کے جواب میں پارلیمنٹ کی قرارداد آئی ایم ایف پروگرام پر اثر انداز نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ عالمی بینک نے داسو کے لئے ایک ارب ڈالر کی منظوری دی ہے ، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) نے پی ٹی سی ایل کیلئے 400 ملین ڈالر کی منظوری دیدی، یہ رقم اگلے مالی سال آجائے گی، ایف بی آر نے 9.3 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولیاں کرلیں، جن میں گروتھ تیس فیصد ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سب میکرو استحکام کے فوائد ہیں، اور میکرو استحکام کو کیسے آگے لے کر جانا ہے یہی چیلنج ہے ، میکرو استحکام لڑکھڑا گیا تو پھر باقی چیزیں کرنا مشکل ہوگا، ایف بی آر کی مکمل ڈیجیٹلائزیشن کی جارہی ہے جتنی ڈیجیٹلائزیشن ہوگی اتنی بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ چوری میں ایف بی آرحکام اور ٹیکس پیئرز دونوں ملوث ہیں، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اگر سرکار کی طرف سے کوئی کرپشن کرتا ہے تو دوسری طرف سے بھی تو کوئی کرتا ہے ، اس رجحان کو روکنا ہے جس کیلئے ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا، وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں اگر لیکیج نہ ہورہی ہو تو کرنے کو بہت کچھ مل جائیگا، ایف بی آر کے لیکیجز، کرپشن، چوری کو بند کرنا ہوگا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں