ماضی کے جھروکوں سے…(3)

جماعت اسلامی کے اکتوبر 1963ء کے اجتماع عام میں شہادت پانے والے اللہ بخش کی والدہ اس وقت زندہ تھیں۔ بوڑھی والدہ پر قیامت گزر گئی‘ اہلیہ اور بچوں کی دنیا اندھیر ہو گئی مگر قادرِ مطلق اور رحمان و رحیم مولائے کریم نے سب کے دلوں پر اپنی رحمت کا مرہم رکھا اور شہید کے خون کی برکات نے امید کے دیپ روشن کر دیے۔ غم کے گہرے بادلوں کے باوجود زندگی کا سفر جاری رہا اور روشنی کی کرنیں مسلسل نمودار ہوتی چلی گئیں۔ اللہ بخش اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے۔ شہید کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بیٹی اور پانچ بیٹے عطا فرمائے۔ بیٹی کا ذکر گزشتہ کالم میں ہو چکا کہ جو اپنے والد کی شہادت کے وقت 16 سال کی تھی اور اجتماع گاہ میں خواتین کے کیمپ میں موجود تھی۔
اجتماع پر غنڈوں کے ذریعے حملہ حکمرانوں کی بدترین ذہنیت کا عکاس اور دہشت گردی کی بدترین مثال تھا۔ صوبہ سرحد (کے پی) سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں اور بزرگوں کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ موجود تھا۔ کئی کارکنوں نے قیادت سے اجازت مانگی کہ وہ اپنے دفاع کے لیے قانونی اسلحہ استعمال کر لیں مگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان ساتھیوں کو سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ آپ نے کہا کہ حکومت تو چاہتی ہی یہ ہے کہ ہماری طرف سے کوئی ردِعمل آئے اور وہ پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرے کہ یہ اجتماع نہیں تھا بلکہ اہالیانِ لاہور کے قتلِ عام اور خون ریزی کی ایک سازش تھی۔
اللہ بخش کی شہادت جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک یادگار واقعہ ہے۔ آج اس خاندان کے سبھی ورثا معاشرے میں عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ شہید کی بیٹی اب ماشاء اللہ جماعت اسلامی کی رکن ہیں اور اللہ نے ان کی عائلی زندگی کو خوشحالی و خوشگوار ماحول سے مالا مال کیا ہے۔ اللہ نے صالح اولاد سے نوازا۔ ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کی اپنی رہائش گاہ اسلام آباد میں ہے۔ الحمدللہ! ان کے سبھی بیٹے بھی خوشحال اور صاحبِ اولاد ہیں۔
ایک بیٹا وہاڑی میں ایک یونیورسٹی میں استاد ہے اور یہ اسی کے ساتھ وہاڑی میں رہتی ہیں۔ ان کے ایک فرزند ارجمند عطا اللہ رکن جماعت اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نائب امیر ضلع ہیں۔ موصوف گوجرہ میں اپنا ہسپتال چلا رہے ہیں۔اللہ بخش کے پانچ بیٹے‘ محمد اسلم‘ محمد اکرم‘ محمد سرور‘ محمد افضل اور محمد انور‘ سبھی اپنے والد کی شہادت کے وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے۔ پانچواں بیٹا محمد انور تو محض ایک سال کا تھا۔
محمد اسلم‘ محکمہ صحت میں ملازم تھے اور وہاں سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اٹامک انرجی چشمہ میں بطور انجینئر کام کر رہا ہے۔ اور یہ اس کے ساتھ وہیں پر مقیم ہیں۔
محمد اکرم نے اپنے والد کے بعد چھوٹی عمر ہی میں کاشتکاری اور زمین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ سب بھائیوں کو تعلیم کے دوران انہی کی محنت و کاوش سے سہولتیں حاصل رہیں۔ 1995ء میں محمد اکرم ایک حادثے میں فوت ہو گئے۔ محمد اکرم مرحوم کے سبھی بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اسلام آباد میں مقیم اور اچھا بزنس کر رہے ہیں۔
محمد سرور جماعت اسلامی کے رکن رہے۔ کراچی سٹیل ملز میں ملازم تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی ہی میں مقیم ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور سبھی اچھی مالی پوزیشن میں ہیں۔
محمد افضل بھی سٹیل ملز میں سرور صاحب کے ساتھ ملازم تھے۔ ان دنوں ریٹائر ہونے کے بعد واپس گوجرہ میں آ گئے ہیں۔ ان کے بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور انجینئر ہیں۔
محمد انور‘ جو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں‘ اور والد کی شہادت کے وقت جن کی عمر محض ایک برس تھی‘ جماعت اسلامی کے کارکن اور بہاولپور میں مقیم ہیں۔ ان کو لکھنے پڑھنے کا بھی شوق ہے اور مختلف مقامی اور قومی جرائد و اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ ان کے بچے ابھی زیر تعلیم ہیں۔ یہ بہاولپور میں اپنے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی چلا رہے ہیں۔ خاندانی حالات کی یہ تمام تفاصیل برادرِ عزیز محمد انور صاحب ہی کے ذریعے حاصل ہوئیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس تعاون پر انہیں بہترین اجر عطا فرمائے۔
اللہ بخش کے والد چودھری نبی بخش ان کی شہادت سے قبل وفات پا چکے تھے جبکہ ان کی والدہ حیات تھیں۔ اکلوتے بیٹے کے اس ظالمانہ قتل پر فطری بات ہے کہ والدہ کا کلیجہ شدتِ غم سے پھٹ گیا ہو گا۔ معصوم بچوں کے یتیم ہو جانے کے غم اور جوان بہو کا سہاگ لٹ جانے کے صدمے نے انہیں نڈھال کر دیا ہوگا۔ اللہ کی اس صابرہ و شاکرہ بندی نے خود کو سنبھالا اور اپنے اہل و عیال کے سر پر سائبان بن کر بقیہ مختصر زندگی گزاری۔ 1967ء میں اپنے لختِ جگر کی وفات کے چار سال بعد والدہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ غفراللہ لھا وارحمھا وعافھا۔
کسی بھی شہید کا جو درجہ اور مقام ہے‘ وہ ہر مومن کے لیے قابلِ رشک ہے۔ مشہور‘ بہادر اور طاقتور مجاہد صحابی حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں‘ (1) خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ (2) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے۔ (3) عذابِ قبرسے محفوظ رہتاہے۔ (4) فزع اکبر (عظیم گھبراہٹ والے دن) سے مامون رہے گا۔ (5) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گاجس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے۔ (6) بہتر جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
شہید کی بیوہ نے غم و اندوہ کے کئی سال انتہائی عزیمت اور صبروشکر کے ساتھ گزارے۔ پھر ان کے بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور اپنی عظیم والدہ کی خدمت میں لگ گئے۔ زخم فرقت وقت کے مرہم سے شفا پاتا ہے اور بچوں کا پھلتا پھولتا گلستان حوصلوں کو جلا بخشتا ہے۔ وقت گزرتا چلاگیا‘ سب بچے جوانی کی حدود میں داخل ہوئے‘ تعلیم کے تمام مراحل بخیر وخوبی مکمل ہوئے۔ یکے بعد دیگرے سب بچوں کی شادیاں ہو گئیں۔ اپنے بچوں اور آگے ان کے آنگن میں کھلنے والے پھولوں‘ کلیوں کو دیکھ کر شہید کی اہلیہ کا دل ٹھنڈا ہوتا رہا۔
یہ شہید کے خونِ مقدس کا صدقہ ہے کہ پورا گلستان اللہ کے فضل و کرم سے آباد وشاد ہے۔ شہید کی اہلیہ شوہر کی فرقت کے 39 سال بعد 2002ء میں راہیٔ ملکِ بقا ہوئیں۔ اللہ اس صابرہ و شاکرہ مومنہ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے شہید شوہر کے ساتھ اعلیٰ علییّن میں مقامِ رفیع عطا فرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں