11 اگست 1947ء کی تقریر‘ کیا پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا اعلان تھا؟
اس تقریر میں قائداعظم نے ایسا کیا فرمایا کہ جو ایک سیکولر ریاست ہی میں ممکن ہے، 'اسلامی ریاست‘ میں ممنوع ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اس تقریر کے زیرِ بحث الفاظ پر ایک نظر دوبارہ ڈال لینی چاہیے۔ انہوں نے فرمایا: 'آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے‘ مذہبی معنوں میں نہیں کہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ ریاست کے شہری کے طور پر‘ سیاسی معنوں میں‘‘۔ کیا یہ باتیں 'اسلامی ریاست‘ کے تصور کے خلاف ہیں؟
دنیا کی پہلی 'اسلامی ریاست‘ مدینہ میں قائم ہوئی جس کی سربراہی ایک پیغمبر کے ہاتھ میں تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ تاریخی حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ ایک جمہوری ریاست تھی۔ نبی کریمﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے یثرب کی اکثریت مسلمان ہو چکی تھی۔ اس اکثریت کے نمائندوں نے اللہ کے آخری رسولﷺ کو دعوت دی کہ آپ تشریف لائیں اور یہاں کا اقتدار سنبھالیں۔ آپﷺ یہاں پناہ گزین نہیں تھے‘ حاکم تھے اور یہ بات آپﷺ کی آمد سے پہلے طے ہو چکی تھی۔
مدینہ تشریف آوری کے بعد آپﷺ نے ریاست کے استحکام کی طرف جو پہلا قدم اٹھایا وہ اس کے قرب و جوار میں آباد قبائل کو اس ریاست کا باضابطہ حصہ بنانا تھا۔ اس کے لیے آپ نے ان سے معاہدے کیے۔ ان کو ہم بحیثیت مجموعی 'میثاقِ مدینہ‘ کہتے ہیں۔ بطورِ سربراہ مملکت یہ نبیﷺ کی حکمت و بصیرت کا اعلیٰ مظہر ہے۔ ایک طرف آپﷺ نے ان یہودی قبائل سے معاہدہ کیا او دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں بھی ایک معاہدہ کرایا۔ اس طرح آپ نے ریاست کو استحکام دیا۔
بنو عوف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس میں کہا گیا: ''بنی عوف کے یہودی سیاسی حیثیت سے مسلمانوں کے ساتھ ایک امت تسلیم کیے جاتے ہیں۔ رہا دین کا معاملہ تو یہودی اپنے دین پر رہیں گے اور مسلمان اور ان کے موالی سب اپنے دین پر‘‘۔ کیا یہ وہی بات نہیں جو قائداعظم نے فرمائی؟ کیا اس معاہدے سے ریاستِ مدینہ معروف معنوں میں ایک 'سیکولر‘ ریاست ہو گئی؟
اس سے ایک بدیہی نتیجہ اور بھی ہے۔ الفاظ کی گواہی یہ ہے کہ قائداعظم جب یہ بات کہہ رہے تھے تو انکے سامنے یہی میثاقِ مدینہ کی دستاویز تھی۔ پاکستان کے بارے میں اس حوالے سے بھی کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اصلاً مسلمانوں کیلئے قائم ہو رہا تھا‘ تاہم اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ یہاں غیر مسلم آباد نہیں ہو سکتے۔ قائد نے اسی کو واضح کرنا چاہا کہ مسلمانوں کا ملک ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہاں غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی حوالے سے کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ ہمارے سامنے نبیﷺ کی مثال موجود ہے جنہوں نے یہودیوں کے ساتھ معاہدے کیے اور ریاستِ پاکستان بھی اسی طرح کا معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔نبیﷺ کے اس اسوہ سے مسلمان اہلِ علم نے بہت سے اصول اور ضابطے کشید کیے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاہد کے ساتھ ریاست کوئی بھی معاہدہ کر سکتی ہے۔ انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق بھی دے سکتی ہے۔ قائداعظم نے بھی یہی کہا کہ جو اپنے انتخاب سے پاکستان کے شہری بنے ہیں‘ انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمان شہریوں کے ہیں۔ یہ تصور اسلامی ریاست کے اس تصور کے عین مطابق ہے جسے مسلمان مانتے چلے آئے ہیں۔
مجھے اندیشہ ہے کہ وجاہت مسعود جیسے ہماے سیکولر دوست اسلامی ریاست کے اس تصور سے پوری طرح واقف نہیں۔ اسلئے انہیں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ مسلم قومی ریاست میں غیر مسلموں کو مساوی حقوق نہیں دیے جا سکتے۔ یہ غلط فہمی غالباً بعض اہلِ علم کی آرا سے پیدا ہوئی جو ایک 'اسلامی‘ ریاست میں غیرمسلموں کو کلیدی عہدے دینے کے خلاف ہیں۔ یہ مسلم فکر کے اندر ایک رائے ہے‘ کوئی اجماعی موقف نہیں۔ اس کے برخلاف رائے بھی موجود ہے۔ قائداعظم بھی اس دوسری رائے کے قائل تھے۔ انہوں نے ابتدا میں ایک غیر مسلم کو وزیر قانون بنایا۔ ہمارے ہاں بعد میں بھی غیر مسلم اہم عہدوں پر فائز رہے۔ یہ درست ہے کہ اب پاکستان کے آئین میں غیر مسلم صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ اس آئین کے بارے میں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اسے کسی آمر نے مسلط نہیں کیا۔ یہ جمہور کے نمائندوں کا بنایا ہوا آئین ہے۔اس بحث میں 'اسلامی ریاست‘ سے مراد مستعمل تصور ہے۔ میرے نزدیک جہاں مسلمان حکمران ہے‘ وہ بطور مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے مختلف طبقات سے کوئی بھی معاہدہ کر سکتا ہے۔ ایک جمہوری مملکت میں ایسا معاہدہ پارلیمان اور جمہور کے نمائندوں کی تائید ہی سے ہو گا۔ قائدچونکہ ایک 'مسلم قومی ریاست‘ کے علمبردار تھے جو جمہوری تھی‘ اس لیے وہ بھی اسی کے قائل تھے۔
قائداعظم کے بارے میں یہ بتایا جا چکا کہ وہ اس قومی ریاست کے قائل نہیں تھے جس نے مغرب میں جنم لیا۔ اسی طرح وہ اس جمہوریت کے حامی بھی نہیں تھے جسے 'لبرل جمہوریت‘ کہتے ہیں۔ اس بات کو انہوں نے 14 فروری 1948ء کو سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا: ''میرے ذہن میں پنہاں ایک اہم اصول ہے... مسلم جمہوریت کا اصول۔ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات ان سنہری اصول و ضوابط کے اتباع میں ہے جو ہمارے عظیم قانون ساز پیغمبرِ اسلامﷺ نے ہمیں عطا فرمائے۔ آئیے! ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد اسلام کے سچے نظریے اور اصولوں پر رکھیں۔ ہمارے پروردگار نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہمارے ریاستی معاملات مشاورت کے اصول پر طے ہونے چاہئیں‘‘۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ 14 فروری 1948ء کی تاریخ 11 اگست 1947ء کے بعد آتی ہے۔
یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن جب رواداری کے لیے اکبر کو مثال بنانے کی نصیحت کرتے ہیں تو قائد اُن کی تصحیح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمارے لیے اسوہ نبیﷺ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو واضح کرتے ہیں ہمارا تصورِ جمہوریت الگ ہے جو نبیﷺ کا عطا کردہ ہے۔ یہ بلاوجہ نہیں۔ برادرم وجاہت مسعود صاحب! آپ جیسے ذہین اور (میرے نزدیک) فکری دیانت دار کو کیا اس کے بعد بھی کسی دلیل کی ضرورت ہے کہ قائداعظم مروجہ معنوں میں سیکولر نہیں تھے۔ وہ اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ریاست کا نظام چلانا چاہتے تھے؟
قائداعظم کے بعد کیا ہوا‘ یہ ایک دوسری کہانی ہے۔ میں خلطِ مبحث سے بچنے کیلئے اپنی بات کو صرف اس دائرے تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ قائداعظم کا تصورِ ریاست کیا تھا۔ میری دانست میں وہ مسلمانوں کے لیے ایک ملک بنانا چاہتے تھے جس کا نظام اسلام کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہو‘ تاہم ان پر یہ واضح تھا کہ یہ ایک قومی ریاست ہو گی۔ مسلمان چونکہ ایک قوم ہیں اس لیے یہ ریاست مسلم قومیت کی نمائندہ ہو گی۔ اس مسلم قومی ریاست کا کردار ان کے نزدیک مروجہ ریاست کے کردار سے اصولاًمختلف نہیں تھا۔
میرے فہم کے مطابق اسلامی ریاست ہو یا سیکولر‘ دونوں میں ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے: عوام کے جان و مال‘ عزت و آبرو اور بنیادی حقوق کا تحفظ۔ یہ قانون کی عملداری کے باب میں ہر طرح کی مذہبی‘ صنفی یا تسلی امتیاز کا انکار ہے۔ جو بات مقاصدِ شریعت کے تحت مسلم فکر میں پائی جاتی ہے وہی قومی ریاست کے تصور میں موجود ہے۔ ایک سیکولر حکمران کے پیشِ نظر ممکن ہے کہ صرف دنیا کا تناظر ہو جبکہ مسلمان حکمران اسے آخرت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ دنیا میں دونوں کی منزل ایک ہے۔
قائد کے اس تصور سے کیا مولانا عثمانی کو بھی اتفاق تھا؟ اس سوال کا جواب آئندہ‘ ان شاء اللہ۔