"KMK" (space) message & send to 7575

نمک حرام ڈیوڑھی سے فلیٹوں‘ اپارٹمنٹوں اور مینشنوں تک

ایک فارسی محاورے نے ہندوستان کے مغل بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں پہنچا دیا جہاں اردو کے پہلے مزاحیہ شاعر جعفر زٹلی کو تسمے سے گلا گھونٹ کر مارا جا رہا تھا۔ پھر جعفر زٹلی سے جعفر گنج کی یاد آئی جس نے اس مسافر کو آج سے 267 برس پرانی پانچ جون کی یاد دلا دی جب مرشد آباد کے علاقے لال باغ میں واقع جعفر گنج کی ایک حویلی میں ایک گورے صاحب نے قرآنِ مجید کو ایک دیسی کے سر پر رکھا ہوا تھا۔ اس دیسی کا ہاتھ ایک نوجوان کے سر پر تھا اور وہ اس گورے صاحب کو اس نوجوان کے سر پر ہاتھ رکھ کر حلف دے رہا تھا کہ وہ انگریزوں سے طے شدہ معاہدے کے مطابق اپنا کردار سرانجام دے گا اور اس میں کسی قسم کا کوئی ہیر پھیر نہیں کرے گا۔ ہاں! البتہ اس نے اپنے کام کے سرانجام دینے کے عوض گورے صاحب سے صرف ایک اور مطالبہ کیا جو اس گورے نے مان لیا۔ حلف اپنے اختتام کو پہنچا اور گورا صاحب خاموشی سے رات کے اندھیرے میں اس حویلی سے نکل کر واپس قاسم بازار چلا گیا۔ اس تین رکنی اجلاس اور حلف نے برصغیر پاک وہند کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ چند روز بعد اس ملاقات کا نتیجہ انگریزوں کے حق میں نکل آیا۔ بنگال پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا جو بالآخر پورے برصغیر کی فتح پر منتج ہوا۔
جعفر گنج کی حویلی میں اس رات اکٹھے ہونے والے ان تین لوگوں میں گورا صاحب ولیم واٹس تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی مرکز قاسم بازار فیکٹری کا انچارج اور نمائندہ تھا۔ دوسرا شخص جس کے سر پر قرآن رکھا ہوا تھا‘ میر جعفر تھا اور تیسرا شخص جس کے سر پر میرجعفر ہاتھ رکھ کر حلف دے رہا تھا‘ اس کا بیٹا میر میراں تھا۔ یہ حلف بنگال کے جواں سال نواب سراج الدولہ کے خلاف اٹھایا جا رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے طے شدہ معاملات اور معاہدے کے برخلاف کیے جانے والے مختلف تجارتی و دفاعی اقدامات پر نواب سراج الدولہ بہت زیادہ ناراض تھا۔ نواب نے اس سلسلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو تین بنیادی خلاف ورزیوں کے بارے میں تنبیہ کی۔ پہلی یہ کہ کمپنی نے کلکتہ میں قائم اپنے فورٹ ولیم قلعے میں توسیع اور فصیل میں اضافہ کیا ہے اور اس سلسلے میں نواب سے نہ تو اجازت لی گئی اور نہ ہی اطلاع دینا مناسب سمجھا گیا۔ دوسری یہ کہ کمپنی مغل حکومت کی طرف سے دی گئی تجارتی رعایتوں سے کہیں بڑھ کر ناجائز فوائد اٹھا رہی ہے جس سے بنگال سرکار کو محصول اور ٹیکسوں کی مد میں بھاری نقصان ہو رہا ہے اور تیسری یہ کہ کمپنی حکام بنگال سرکار کے مجرموں اور معتوب لوگوں کو ''پناہ‘‘ فراہم کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں نواب کے خزانے میں سے فراڈ اور غبن کر کے ڈھاکہ فرار ہو جانے والے راج بلائو کے بیٹے کرشنا داس کو پناہ دی ہے۔ بجائے اس کے کہ نواب کے اعتراضات پر کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا‘ کمپنی نے نہ صرف یہ کہ فورٹ ولیم میں مزید دفاعی تنصیبات کی تعمیر میں تیزی پیدا کر دی بلکہ اپنی فوجی افرادی قوت میں بھی اضافہ کر دیا۔ اس پر نواب نے انہیں سختی سے منع کیا کہ وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں مگر اس وارننگ کا بھی اُلٹا اثر ہوا اور کمپنی کی طرف سے دفاعی خلاف ورزیاں مزید بڑھ گئیں۔ جون 1756ء میں نواب نے کلکتہ میں واقع فورٹ ولیم پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں کمپنی نے گفت وشنید کے بعد نواب سے صلح کر لی لیکن اس کے دل میں نواب کے خلاف گرہ پڑ گئی اور یہ طے کر لیا کہ نواب سراج الدولہ سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے کیونکہ نواب کے ہوتے ہوئے ان کو من مانی کی اجازت نہیں مل سکتی۔
نواب کے خلاف سازش کا بنیادی کردار ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ ولیم واٹس تھا اور اس نے اس سلسلے میں نواب کے طاقتور درباریوں اور مرشد آباد کے سیٹھوں سے مل کر نواب کے خلاف سازش کیلئے رابرٹ کلائیو (بعد ازاں گورنر جنرل ریذیڈنسی آف فورٹ ولیم) سے اجازت طلب کی جو مل گئی۔
اس سازش کے تانے بانے چند لوگوں کے درمیان مالی‘ تجارتی اور سیاسی فوائد سے جڑے ہوئے تھے۔ طے پایا کہ سازش کامیاب ہونے اور نواب سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اس سازش کے مرکزی کردار میر جعفر کو بنگال کا حکمران بنایا جائے گا جبکہ میر جعفر کلائیو کو تب 30 ہزار پائونڈ یا اس کے برابر جاگیر دے گا (2023ء میں یہ رقم اکیاون لاکھ برطانوی پائونڈز کے برابر تھی)۔ میر جعفر کو تو اس کی غداری کا صلہ حکمرانی کی صورت میں مل رہا تھا تاہم اس کے علاوہ اس سازش میں دربار سے چند دیگر امرا بھی شامل تھے جن میں رائے درلابھ‘ یار لطف خان‘ امی چند (امیر چند)‘ کرشنا چندرا‘ جگت سیٹھ فیملی اور کچھ اہم فوجی افسران شامل تھے۔
ولیم واٹس میر جعفر اور جگت سیٹھ فیملی (مہتاب چند اور سوروپ چند) پر مشتمل کمیٹی نے اس ساری سازش کا تحریری معاہدہ کیا جس پر کمیٹی ارکان‘ کرنل رابرٹ کلائیو اور سلطنت برطانیہ کے نمائندے ایڈمرل واٹسن نے دستخط کیے۔ جگت سیٹھ فیملی نے رابرٹ کلائیو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو دس دس لاکھ پائونڈ دیے۔ طے پایا کہ فتح کے بعد میر جعفر کمپنی کو فورٹ ولیم کی فتح کے عوضانے کے طور پر نواب کے خزانے سے بھاری رقم بطور تاوان ادا کرے گا۔
نواب سراج الدولہ کی عمر محض 24 سال تھی۔ اس کی ریاست کے ایک طرف احمد شاہ ابدالی کی افغان فوج تھی اور دوسری طرف مرہٹوں نے ناک میں دم کیا ہوا تھا‘ تاہم نواب نے اپنی فوج کو خاصا تیار کر رکھا تھا لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس کے اپنے لوگ اس کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ نواب فورٹ ولیم کی فتح سے واپس آ رہا تھا کہ اسے خبر ملی کہ کلائیو مدراس سے تازہ دم فوج لے کر آ رہا ہے۔ نواب نے اس فوج پر حملہ کرنا چاہا لیکن سازشی میر جعفر نے نواب کو حملہ اگلے دن تک مؤخر کرنے پر راضی کر لیا۔ اگلے روز جب جنگ شروع ہوئی تو نواب کی وہ 40 توپیں خاموش تھیں جن کو کھینچنے کیلئے خاص نسل کے طاقتور بیل پالے گئے تھے۔ میر جعفر بذاتِ خود انگریزوں کی طرف جا کھڑا ہوا۔ نواب کی فوج کا بیشتر حصہ اپنے کمان داروں کے حکم پر غیر جانبدار کھڑا رہا۔ 50 ہزار فوجیوں پر مشتمل لشکر میں سے تقریباً 45 ہزار فوجی اس جنگ سے لاتعلق ہو گئے۔ نواب کو شکست ہوئی۔ پانچ جون کو جعفر گنج کی حویلی میں ہونے والے معاہدے میں میر جعفر نے ولیم واٹس سے جو ایک مزید مطالبہ منوایا تھا وہ یہ تھا کہ نواب سراج الدولہ کو اس کے حوالے کر دیا جائے گا اور اس کی موت کا فرمان وہ جاری کرے گا۔ دو جولائی 1757ء کو نواب سراج الدولہ کو میر میراں (میر جعفر کا بیٹا) کے حکم پر محمد علی بیگ نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
میر جعفر بنگال کا حاکم بن گیا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ جعفر گنج کی وہ حویلی جس میں نواب سراج الدولہ کے خلاف سازش ہوئی اور اسے اس کی ڈیوڑھی میں قتل کیا گیا تھا کھنڈر بن گئی‘ تاہم اس کا دروازہ اور ڈیوڑھی موجود ہے اور مرشد آباد والے اسے نمک حرام ڈیوڑھی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے تھوکنا نہیں بھولتے۔
ممکن ہے اس سارے قصے میں کچھ چیزیں تشنہ رہ گئی ہوں‘ مگر نہ تو مجھے تاریخ دان ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ہی میں ہوں۔ یہ تو بس جعفر زٹلی سے میر جعفر یاد آ گیا۔ یہ نہیں کہ نمک حرام حویلی کی شہرت سے عبرت پکڑ کر مصاحبین سلطنت اور کٹھ پتلی حکمرانوں نے غداری سے توبہ کر لی تاہم یہ ضرور ہوا کہ غداروں اور سازشیوں نے طریقۂ واردات بدل لیا۔ انہوں نے جنگوں کے بجائے ملک کو اقتصادی غلامی میں دینے کا طریقہ اپنایا۔ حویلیوں کا دور گزر گیا۔ انہوں نے اپنے اپارٹمنٹ‘ فلیٹ‘ مینشن اور جاگیریں دیارِ غیر میں اپنے اصلی آقاؤں کی سرزمین پر بنانا شروع کر دیں‘ تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ غدار ہر دور میں نیا طریقہ کار ایجاد کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں