حکومت نے ایک ہفتہ قبل آپریشن عزمِ استحکام کا اعلان کیا تو پی ٹی آئی سمیت علاقائی و قوم پرست جماعتوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا‘ چونکہ ابتدا میں آپریشن کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئی تھیں اس لیے اپنے تئیں قیاس آرائیاں کی جانے لگیں۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ چین کی ایما پر یہ آپریشن شروع کیا جا رہا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے اسے ماضی کے آپریشنز سے تعبیر کیا جس میں بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی‘ جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی نے واضح طور پر آپریشن عزمِ استحکام کے خلاف بیانیہ تشکیل دیا جس پر حکومت نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست ہے نہ ہی کسی خاص علاقے میں یہ آپریشن ہو گا بلکہ عزم استحکام سے ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔ عزم استحکام پر تنقید کرنے سے پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان چین کیساتھ اپنے تعلقات کو ہر لحاظ سے آگے بڑھانا چاہتا ہے‘ سی پیک کے فیز ٹو پر کام شروع ہو چکا ہے جس کے تحت ملک بھر میں صنعتیں قائم ہوں گی تو سکیورٹی خدشات بھی بڑھ جائیں گے‘ چینی انجینئرز پر حملے ان خدشات کا عملی ثبوت ہیں‘ اس لیے اگر چین ہم سے سکیورٹی چیلنجز پر قابو پانے کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس میں کچھ غلط نہیں۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نئی دنیا تلاش کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ہم آج بھی سطحی موضوعات سے بالاتر ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہیں۔
چند روز قبل چین کی ہینن یونیورسٹی کے ہائیکو انسٹیٹیوٹ آف پبلک ڈپلومیسی کی دعوت پر ہم چین میں تھے جہاں ہمیں بھی ایک سیشن کو چیئر کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 70 سال پہلے چین نے امن کے پانچ بنیادی اصول پیش کیے تھے جو بلاشبہ ترقی کے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام‘ آپس میں جارحیت نہ کرنا‘ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینا‘ مساوات اور باہم تعاون سے فائدہ اٹھانا اور پُرامن بقائے باہمی ان اصولوں کا خلاصہ ہے۔ امن کے پانچ بنیادی اصولوں کو اپنائے ہوئے 70 سال پورے ہونے کی خوشی کے موقع پر بیجنگ میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی چیانگ بطورِ خاص شریک ہوئے۔ کانفرنس میں 100 سے زائد ممالک کے سابق لیڈر‘ کئی تنظیموں کے نمائندے اور ماہرین بھی شامل تھے۔ کانفرنس کا مقصد امن اور خوشحالی کیلئے مل کر کام کرنے کا عہد کرنا تھا۔ جہاں شرکا اجلاس کو چین کے پانچ اصولوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے چیدہ چیدہ نکات پیش ہیں۔ یہ اصول ایشیائی دانش پر مبنی ہیں اور اب بین الاقوامی تعلقات کیلئے کھلے‘ جامع اور عالمی طور پر لاگو ہونے والے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصول بن چکے ہیں۔ ان اصولوں نے انسانی ترقی کی راہ پر نمایاں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ یہ اصول اقوام متحدہ کے چارٹر کے اغراض و مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور یہ بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اصول‘ سیاسی‘ سکیورٹی‘ معاشی اور سفارتی شعبوں میں تمام ممالک کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کیلئے ایک مکمل سیٹ فراہم کرتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون کی ترقی پر دور رس اثر رکھتے ہیں۔ یہ اصول ممالک کو دشمنی اور تصادم کے رویے سے نجات حاصل کرنے‘ مساوات اور آپس میں احترام کی بنیاد پرپُر امن طریقے سے بقائے باہمی اختیار کرنے اور اختلافات اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ ان اصولوں نے ترقی پذیر ممالک کے باہمی تعاون اور اتحاد کو مضبوط بنانے اور اتحاد کے ذریعے طاقت حاصل کرنے کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے آزاد راستے تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ اصول ترقی پذیر ممالک کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کیلئے بنائے گئے تھے اور سامراج‘ نو آبادیات اور غلبہ جتانے جیسے نظاموں کو ختم کرنے کیلئے تھے۔ ان اصولوں نے منصفانہ اور برابر عالمی نظام کی فکری بنیاد رکھی اور اسے فروغ دیا ہے۔
دنیا آج مختلف تبدیلیوں سے دوچار ہے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود یہ اصول پہلے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ آج کے دور میں ان اصولوں کو آگے بڑھانے کے لیے انسانیت کے مشترکہ مستقبل والی کمیونٹی کی تعمیر ایک فطری عمل ہے۔ مشترکہ مستقبل کا خواب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کا مستقبل ایک ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ایسی دنیا کی تشکیل ہے جہاں ہمیشہ امن‘ عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی ہو۔ یہ دنیا کھلی‘ جامع‘ صاف اور خوبصورت ہو گی۔
شرکائے اجلاس نے بیلٹ اینڈ روڈ‘ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو‘ گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کو آگے بڑھانے کیلئے چین کی تجاویز کی تعریف کی اور عالمی امن و سلامتی کے تحفظ‘ عالمی پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور انسانی تہذیب اور ترقی میں حصہ ڈالنے کیلئے اس کی اہمیت کو تسلیم کیا کیونکہ یہ منصوبے انسانیت کے مشترکہ مستقبل والے کمیونٹی کی تعمیر کیلئے ٹھوس اور قابلِ عمل راستے پیش کرتے ہیں۔ ان اصولوں کا جوہر خودمختاری کی مساوات ہے جو بین الاقوامی تعلقات میں سب سے اہم ہے۔ چین کہتا ہے کہ تمام ممالک کو پُرامن ترقی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور مشترکہ‘ جامع‘ تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے تصور پر عمل کرنا چاہیے۔ زیادہ متوازن‘ موثر اور پائیدار سلامتی کے ڈھانچے کی تعمیر کیلئے کام کرنا چاہیے اور بات چیت کے ذریعے تصادم کے بجائے بڑے بین الاقوامی اور علاقائی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ چینی سوچ کے مطابق عالمی تجارت کے دور میں ترقی کو فروغ دینا اور تعاون کے ذریعے آپس میں فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ عالمی معیشت کو وسعت دی جائے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کو ترقی کے فوائد میں برابر کا حصہ دیا جائے تاکہ ترقی سب کیلئے فائدہ مند ہو۔ معاشی قوانین اور مارکیٹ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے غیر جانبدار اور تحفظ پسند اقدامات آخر کار سب کو نقصان پہنچائیں گے۔ چین کہتا ہے کہ اقوام متحدہ کو مرکز میں رکھتے ہوئے بین الاقوامی نظام کا دفاع کیا جائے اور وسیع مشاورت اور مشترکہ مفاد کیلئے مشترکہ تعاون کی خصوصیات سے مزین عالمی حکمرانی کو آگے بڑھایا جائے۔ یوکرین بحران اور فلسطین اسرائیل تنازع جیسے اہم مسائل کو صرف بات چیت اور مشاورت کے ذریعے سیاسی حل کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت جیسے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ مشترکہ تعاون سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ چین کہتا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تبادلہ خیال اور آپس میں سیکھنا انسانی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ کھلے دل کیساتھ تہذیبوں کے تنوع کا احترام کرنا ضروری ہے۔ تہذیبی برتری کے امتیازی اور علیحدگی پر مبنی تصور کو مسترد کرنا چاہیے اور تہذیبوں کے تصادم کو بھڑکانے سے گریز کرنا چاہیے۔ امن‘ ترقی‘ مساوات‘ انصاف‘ جمہوریت اور آزادی بنیادی انسانی اقدار ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اتفاقِ رائے رکھتے ہیں اور ان کی سب کو پاسداری کرنی چاہیے۔ چین امن کے پانچ بنیادی اصولوں کے تحت سکالرشپ آف ایکسی لینس کے ذریعے اگلے پانچ سالوں میں ترقی پذیر ممالک کو ایک ہزار سکالرشپس اور ایک لاکھ افراد کو تربیت کے مواقع فراہم کرے گا۔ 2030ء تک چین ترقی پذیر ممالک سے 8 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد کی درآمدات کرے گا‘ جس سے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تقویت ملے گی۔ ذرا تصور کریں کہ چین جیسے ممالک ستاروں پر کمند ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اس کے برعکس پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ فیصلہ کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام ہونا چاہیے یا نہیں۔ خود فیصلہ کریں ہم دنیا کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟