آئینی ترمیم:آج آخری کوشش،ناکام ہوا تو جمہوریت کیلئے دعا مانگیں:بلاول

آئینی ترمیم:آج آخری کوشش،ناکام ہوا تو جمہوریت کیلئے دعا مانگیں:بلاول

حیدر آباد(دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے آئینی ترمیم کیلئے اپوزیشن کو راضی کرنے کی آج آخری کوشش کروں گا، اسلام آباد سے آئینی بینچ اور صوبائی بینچ بنا کر واپس آؤں گا، اگر میری یہ کوشش ناکام ہو گئی تو پھر سب جمہوریت کے لیے دعا مانگیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ رہے پھر بھی ہمارا مطالبہ ہے برابری کی عدالت قائم ہو، ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا، برابری کی عدالت بنانا پڑے گی۔بینچ کہیں یا کوئی بھی نام دیں،برابری کی عدالت بنانا پڑیگی، اگر اپوزیشن نے دروازے بند کئے تو مجبوراً مجھے ناپسندیدہ اور متنازعہ راستے پر چلنا پڑیگا، مولانا سے آخری بار درخواست کروں گا، خود بھی آئیں پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لائیں۔حیدر آباد میں سانحہ کارساز کی برسی پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا شہید بی بی نظریے ، منشور اور مشن کے ساتھ وطن واپس آئی تھیں، شہید بے نظیر نے وفاقی عدالت بنانی تھی، وفاقی عدالت نے پاکستان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔

بلاول بھٹو نے کہا ہم نے صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ون یونٹ توڑا، شہید بی بی کی خواہش تھی عدالتوں سے بھی ون یونٹ کا نظام ٹوٹ جائے ، بی بی شہید کا وعدہ پورا کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا سب کا مطالبہ ہے برابری کی نمائندگی ہو، جب تک عدالت اپنی مرضی کے مطابق چلے گی تب تک عوام کو انصاف نہیں ملے گا، ماضی میں ہمارے ججز نے آمروں کا ساتھ دیا، انصاف دینا ہے تو آئین اور قانون کے ساتھ چلنا ہو گا۔بلاول نے کہا عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ترجیح ہے ، وفاقی آئینی عدالت میں برابری کی نمائندگی ہو گی، آج سیاسی جماعتوں کے لیے امتحان ہے ، پوری کوشش ہے آئین سازی اتفاق رائے سے کریں، آئین سازی کے لیے دن رات محنت کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا جو کام جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا تاریخ انہیں یاد رکھے گی، جسٹس فائز عیسیٰ نے بہادری سے فیض آباد دھرنے کیخلاف فیصلہ دیا کوئی اور جج اس جیسا فیصلہ نہیں کر سکتا تھا، جسٹس فائز سے پہلے تمام چیف جسٹس ڈرتے تھے ۔

بلاول بھٹو نے کہا مولانا فضل الرحمن ترمیم کیلئے ووٹ ڈالیں اگر وہ پی ٹی آئی کو ساتھ لانا چاہتے ہیں تو سب مل کر آئینی بینچ بناتے ہیں، سیاسی جماعتیں آج کا نہیں، مستقبل بارے سوچیں۔ہم سب کو پارلیمان کی عزت میں اضافہ کرنا چاہئے ، یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے آخری موقع ہے ہوش کے ناخن لیں۔پی پی چیئرمین کا کہنا تھا اگر آپ کو انصاف دینا ہے تو آئین کے مطابق چلنا ہوگا، ہمارا جائز مطالبہ ہے ، دہائیوں سے مطالبہ ہے ، آپ کوہمارامطالبہ ماننا پڑے گا،برابری کی عدالت بنانا پڑے گی، آپ نے بینچ کا نام دینا ہے یا کوئی بھی نام دیں، مطالبہ ہمارا ماننا ہے ۔ اسلام آباد سے آئینی عدالت بناکر ہی واپس آؤنگا، اسلام آباد جا کر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرنے کی آخری کوشش کر رہا ہوں، اگر میری یہ کوشش ناکام ہو گئی تو پھر سب کو جمہوریت کے لیے دعا مانگنی چاہئے ۔انہوں نے کہا اگر اپوزیشن میرے لیے دروازہ بند کر دے گی تو متنازعہ راستے پر چلنا پڑے گا، میں اس متنازعہ طریقے پر نہیں چلنا چاہتا، دوماہ سے مشاورت کر رہے ہیں اب ہم مزید انتظار اور کمپرومائز نہیں کر سکتے ۔

مولانا اور تمام سیاسی جماعتوں سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں اتفاق رائے سے قانون سازی کریں، مولانا سے آج پھرملاقات کر کے آئین سازی پر بات کروں گا، اتنے سمجھوتوں کے باوجود بھی بات نہ بنی تو ن لیگ اور ایکسٹرا ممبرز سے ملکر قانون سازی کروں گا۔بلاول بھٹو نے کہا پیپلز پارٹی کا جو ڈرافٹ ہے اسے خود قومی اسمبلی میں پیش کروں گا، کوشش ہے تمام جماعتوں کو اکٹھا کروں، وفاقی عدالت میں جو ون یونٹ قائم ہے وہ ختم ہو جائے گا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا پی ٹی آئی والوں کا مطالبہ تھا بانی سے ملنے دیا جائے میں نے پی ٹی آئی کی بانی سے ملاقات کا بندوبست کرا دیا تھا وہ ملے یا نہیں مجھے نہیں پتا۔بلاول بھٹو نے کہا شہید بے نظیر کے نامکمل مشن کو مکمل کر کے دکھائیں گے ۔انھوں نے کہا پاکستان کے عوام ہمارے مطالبے کے ساتھ کھڑے ہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ نہ کھپے نہ کھپے ون یونٹ نہ کھپے عوام برابری کامطالبہ کر رہے ہیں، ون یونٹ کا مطالبہ توقائداعظم محمدعلی جناح کابھی تھا۔ قائد اعظم نے گول میز کانفرنس میں خود کہا تھا کہ ایک عدالت میں اتنی طاقت نہیں ہونی چاہئے ، ایک عدالت عوام کو کرمنل اور سول کیسز میں انصاف دے ، دوسری عدالت آئینی اور وفاقی ایشوز پر انصاف دے ۔

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،خصوصی نیوز رپورٹر، اپنے رپورٹرسے ،دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق رائے سے 11 صفحات پر مشتمل آئینی ترمیم کے مسودہ کو منظور کر لیا گیا جس کے تحت چیف جسٹس 3سینئر ججوں میں نامزد ہوگا ۔ وفاقی کابینہ ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آج دوبارہ ہونگے ۔ چیئرمین خورشید شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں آئینی ترمیم کو 26 ویں  ترمیمی ایکٹ 2024 کا نام دیا گیا ۔ آئینی ترمیم کے حوالے سے قائم خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا ۔اجلاس میں ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، پی ٹی آئی کے رکن عامر ڈوگر، جے یو آئی ایف کی رکن شاہدہ اختر علی، ن لیگ سے عرفان صدیقی، ایم کیو ایم کے امین الحق، پی پی سے راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمن، رانا تنویر، سینیٹر انوشہ رحمن، چودھری سالک حسین، اعجاز الحق، خالد حسین مگسی اور دیگر نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کی ترامیم مجوزہ مسودے میں شامل نہیں، عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ کا نام تبدیل کرنے کی شق شامل نہ کرنے پر سپیشل کمیٹی کے اجلاس سے بائیکاٹ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے کا نام خیبر نکال کر پختونخوا تجویز کیا ہے ۔ ایمل ولی خان نے سپیشل کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور شریک نہیں ہوئے ۔

اے این پی کے ترجمان احسان اللہ کے مطابق بات چیت کا سلسلہ جاری ہے کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچے ، اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو سپیشل کمیٹی نہیں بلکہ ووٹنگ کا بھی بائیکاٹ کریں گے ۔پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کی تفصیلات سامنے آگئیں۔ آئینی مسودے میں 9A کا اضافہ کیا گیا ہے ۔مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نئے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں۔ نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے ، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے ۔ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 230 سی اور ڈی \\229 \\215 \\209 \\208 \\259 \\255 184۔\\186 185 (اے )186 187\\191(اے )9( اے )38 18\\1 11\\1 17\\5(اے )177 179\\ 193\\اور فورتھ شیڈول میں ترامیم کی منظوری دی۔ مجوزہ ترمیم میں کہاگیا ہے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کر کے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز رکھی گئی ہے ، جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے 4 سینئر ترین جج شامل کرنے کی تجویز ہے ، وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کا نامزد وکیل جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے ۔جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو ، دو ارکان شامل کرنے کی بھی تجویز ہے ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کا تعلق حکومت اور اپوزیشن سے ہو گا۔

جوڈیشل کمیشن صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔ مسودے میں کہا گیا ہے اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت میں مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی۔مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے جوڈیشل کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے ۔چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 12 رکنی ہوگی۔ کمیٹی میں8ارکان قومی اسمبلی 4 ارکان سینیٹ شامل ہوں گے ۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی ۔تجویز کے مطابق پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے ، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3 سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز ہے ۔ چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔خصوصی کمیٹی سے منظور شدہ ڈرافٹ میں کہا گیا کابینہ کی صدر یا وزیراعظم کو بھیجی گئی سفارشات کے متعلق کوئی عدالت نہیں پوچھ سکے گی۔آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا۔

آئینی بینچز کے ججز کا تقرر 3 سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی۔ آئین کے آرٹیکل 38 ، آرٹیکل 48 اور آرٹیکل 81 میں ترمیم کی گئی ہے ۔مجوزہ ترمیم کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے ۔ آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے ۔مجوزہ ترمیم کے تحت آئین کے فورتھ شیڈول میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری تک 90 دن تک عہدے پر رہ سکتے ہیں۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے منظور کیے گئے 26 ویں آئینی مسودے کے مطابق آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز کے تحت پارلیمنٹ میں پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف دیا گیا ووٹ شمار کیا جائے گا، تاہم پارٹی سربراہ اس کے بعد کارروائی کا مجاز ہوگا۔مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودہ میں تجویز دی گئی ہے کہ آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرسکتا ہے ۔

آرٹیکل 243 میں ترمیم کوحتمی مسودے سے نکال دیا گیا جس کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی،سروسزچیفس کی دوبارہ تقرری،توسیع قوانین کوآئینی تحفظ حاصل ہوناتھا، اس کیلئے آئین میں نئے آٹھویں شیڈول کا مجوزہ اضافہ بھی نکال دیا گیا۔ آرٹیکل 203 سی میں ترمیم کے تحت فیڈرل شریعت کورٹ جج بھی اب شرعی عدالت کے چیف جسٹس بننے کے مجاز ہوں گے ، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ شریعت ایپلنٹ بینچ میں اپیل کے فیصلے تک معطل رہے گا، اپیل پر ایک سال تک فیصلہ نہ ہو تو شرعی عدالت کا فیصلہ موثر قرار پائے گا،چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن مدت مکمل ہونے کے باوجود نئے کمشنر یا ارکان کی تقرری تک کام کرتے رہیں گے۔ خورشید شاہ نے کہا مسودے میں سمندر پار پاکستانیوں کے الیکشن لڑنے کی تجویز پر بھی اتفاق ہوا۔بیرون ملک رہنے والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جارہی ہے ان کو تین ماہ میں اپنی دوسرے ملک کی شہریت چھوڑنا ہوگی۔ دوسری طرف آئینی ترمیم کے معاملہ پر وزیراعظم شہبازشریف کی ایوان صدر میں صدر مملکت آصف زرداری سے ملاقات ہوئی جبکہ بلاول بھٹو نے ایک بار پھر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

ادھرآئینی ترمیمی بل کی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس بغیر کارروائی آج صبح تک ملتوی کردیا گیا ۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حتمی مسودے پر بھی بات چیت کی گئی۔ذرائع نے بتایا دونوں رہنماؤں نے مجوزہ آئینی ترمیمی مسودے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ صدر آصف زرداری نے متفقہ قانون سازی کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے اہم قرار دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر کابینہ کے سینئر اراکین سے بھی غیر رسمی مشاورت کی ۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے اہم آئینی و قانونی امور پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے رات گئے مولانا فضل الرحمن سے ہونے والی میٹنگ پر رفقا کو اعتماد میں لیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ایک اور ملاقات کی جس میں سیاسی صورت حال اور مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ۔

اس موقع پر چیئرمین بلاول کے ہمراہ نوید قمر، مرتضیٰ وہاب اور جمیل سومرو جبکہ مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا عطاالرحمن موجود تھے ۔ بلاول ایسے وقت میں مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچے جب پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن رہنما بھی وہاں موجود تھے ۔مولانا فضل الرحمن سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ جے یو آئی اور اپوزیشن کے اجلاس میں پی ٹی آئی، بی این پی، ایم ڈبلیو ایم، سنی اتحاد کونسل کے رہنما شریک تھے ۔اجلاس میں آئینی ترمیم سے متعلق مشاور ت کی گئی ۔ ملاقات میں بیرسٹر گوہر ،عمر ایوب،حامد رضا ، اسد قیصر، سینٹر علامہ راجہ ناصر عباس، بیرسٹر علی طفر شامل تھے ۔بتایا گیا ہے جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان آئینی ترمیم پر مذاکرات مکمل ہوگئے ۔ ایک کے سوا تمام نکات میں دونوں جماعتوں میں اتفاق ہو گیا ۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں جے یو آئی کے تیار کردہ مسودے کا جائزہ لیا گیا جسے پی ٹی آئی نے بھی اپنانے کا فیصلہ کیا اور اسی پر مشاورت کرنے پر اتفاق کیا ۔ ذرائع کے مطابق مسودہ 26 نکات پر مشتمل ہے جس کی ایک تجویز کے سوا دیگر تمام تجاویز پر دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے ہو گیا۔ ذرائع نے بتایا جے یو آئی نے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے تین ججز کے پینل کی تجویز پیش کی مگر پی ٹی آئی موجودہ طریقہ کار کو برقرار رکھنے اور سنیارٹی کے اصول کو فالو کرنے پر بضد ہے ۔

ذرائع کا کہنا تھا پی ٹی آئی اب اس بل پر بانی چیئرمین سے مشاورت کرنا چاہتی ہے جس کے لیے اسے ایک دن کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ عمران خان سے ملاقات کے بعد آگاہ کرے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے بانی پی ٹی آئی جو فائنل ہدایت کریں گے ہم وہ اعلان کر دیں گے مولانا کے ساتھ تقریباً معاملات طے ہیں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم پر بات چیت کی ۔بانی پی ٹی آئی سے مل کر تمام معاملہ ان کے سامنے رکھیں گے ،امید ہے آج ہفتہ کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا بلاول ہماری موجودگی میں آئے مگر ان سے ترمیم پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔ادھر مجوزہ آئینی ترمیمی بل کی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی ہوگیا۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس شام 7 بج کر 30 پر شروع ہوا جس میں وفاقی وزرا، کابینہ اراکین شریک ہوئے ۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس کو بغیر کسی کارروائی کے آج صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترمیم کو منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا ۔ مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی آج طلب کر لیا گیا۔ذرائع کے مطابق اجلاس پارلیمنٹ میں ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف ن لیگی اور اتحادی اراکین کو ظہرانہ دیں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اراکین کو 26 ویں آئینی ترمیم پر اعتماد میں لیں گے ۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا آئینی ترمیم اپنی سیاسی طاقت پر کر کے دکھائیں گے ۔

پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا پیپلزپارٹی،(ن)لیگ،جے یوآئی کا مسودے پراتفاق ہوچکا ہے ، ہم جلد آئین سازی کومنظورکرانے کی پوزیشن میں ہوں گے ، جے یوآئی نے ہمیشہ آئین سازی میں ساتھ دیا ہے ۔انہوں نے کہا اتفاق رائے کے بعد جو شکایات سامنے آئی ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں، مولانا کے جائز مطالبات وزیراعظم کے سامنے رکھے تھے ، امید ہے وزیراعظم مولانا کے مطالبات پورے کریں گے ، میثاق جمہوریت میں کیے وعدے پورے کرنے جارہے ہیں، ہم آئین سازی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں، اتفاق رائے تقریباً ہوچکا ہے ۔قبل ازیں بلاول کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں آصفہ بھٹو، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، سید خورشید شاہ، شازیہ مری، سید نوید قمر اور دیگر شریک تھے ، اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے شہدائے کارساز کو خراج عقیدت پیش کیا اورشہدائے کارساز کے لئے دعا کی گئی۔پارٹی ذرائع کے مطابق بلاول نے پی پی قیادت اور اراکین اسمبلی کو سوموار تک اسلام آباد میں رکنے کی ہدایت کی اور مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بارے میں آگاہ کیا۔دوران ا جلاس گفتگو کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا میری کوشش ہے یہ آئینی ترمیم بغیر لوٹوں کے کرواؤں، مولانا سے بات ہوئی ہے امید ہے وہ ہمارا ساتھ دیں گے ۔ آئینی ترمیم پیش کئے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آج تک کیلئے ملتوی کردئیے گئے ۔سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی صدرت میں ہوا،مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا 26ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے منظور کرنا چاہتے ہیں،ہمارا مقصد سیاسی نظام میں اصلاحات لانا ہے ۔ اس میں کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے اس بل کے مسودے کی منظوری دے دی ہے پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر سمیت کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔

اس معاملے پر مولانا فضل الرحمن نے تعمیری کردارادا کیا ہے ۔ جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما مولانا عطا الرحمن نے کہا آئینی ترمیم کے معاملے پر ہمارے ممبران کو لاپتا کیا گیا، دوسری سیاسی جماعتوں کے ممبران کو بھی غائب کیا گیا، ایک ترمیم کیلئے کون کون سے حربے استعمال ہو رہے ہیں، کیا آئینی ترمیم کیلئے جان جوکھوں میں ڈالنی ہوگی۔سینیٹر شکور خان سے کل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ، ایسی صورتحال میں کیا یہ توقع کی جائے گی کہ ہم ساتھ دیں گے ۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس آج صبح 11بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔دریں اثنا قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا عدالتی اصلاحات آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی آسکتی ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہم نے کبھی نہیں کہا کہ آئین میں تبدیلی نہیں ہوسکتی آئین کی یہ کتابیں ہماری بہن کے سر کے دوپٹے سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں اگر خواتین کو اغوا کرکے قانون سازی کرنی ہے تو شرم کا مقام ہوگا ،پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عامر ڈوگر نے کہاتاثر دیا گیا کہ ڈرافٹ متفقہ طور پر منظور کرایا گیا ابھی بھی یہ ڈرافٹ اصلی نہیں ہے ان ترامیم کا مقصد عدلیہ کو ایگزیکٹو کے تابع کرنا ہے ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما عبدالغفور حیدری نے کہا آئین میں ترمیم کرنے جارہے ہیں حالات کے پیش نظر ترامیم ہوتی رہتی ہیں مگر جس بھونڈے انداز سے ترمیم کرنا چاہتے ہیں انتہائی شرم کی بات ہے ایک طرف مذاکرات ہیں، تو دوسری طرف اپوزیشن کے ممبران کو اغوا کیا جارہا ہے میری جماعت کے ایک ممبر کو بھی اغوا کیا گیا ہے ۔ اگر آپ مصنوعی ووٹ سے آئینی ترمیم کریں گے تو ہم عوام سے سڑکیں بھردیں گے ۔ بعدازاں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی آج سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں