مختلف اونچائی کے درختوں پر مشتمل‘ اوپر نیچے تنے ہوئے تین شامیانوں کے نیچے اُگنے والے جھاڑجھنکاڑ کے باعث رین فاریسٹ میں پیدل چلنا نہ صرف بہت مشکل ہے بلکہ بیشتر جگہوں پر تو ناممکن ہے۔ ہاں‘ البتہ اگر کوئی باقاعدہ پگڈنڈی یا راستہ ہو تو اور بات ہے۔ ڈائنٹری رین فاریسٹ بھی اسی قسم کا جنگل ہے جس میں گھومنا‘ سیر کرنا اور پیدل چل کر لطف لینا ممکن نہیں۔ بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے تقریباً ہر برساتی جنگل میں دریا اور ندی نالوں کی بہتات ہوتی ہے۔ کورانڈا کے پاس اس برساتی جنگل کے درمیان دریائے بیرن بہتا ہے۔ 1875ء میں اس دریا کا نام برسبین پولیس کے چیف کلرک تھامس ہنری بیرن کے نام سے معنون کیا گیا۔ اس برساتی جنگل کو دیکھنے کیلئے سب سے آسان اور پُر لطف طریقہ یہی ہے کہ موٹربوٹ پر اس دریا کے ذریعے جنگل کی وسعت‘ خوبصورتی‘ رعب اور ہیبت کا اندازہ لگایا جائے۔ میں نے اور ڈاکٹر تصور اسلم نے یہی طریقہ اپنایا‘ موٹربوٹ کئی میل تک بیرن گورج نیشنل پارک کے اس گنجان جنگل کے درمیان سے گزرتی ہے اور آپ جنگل‘ پرندوں‘ حیاتِ آبی اور مینگرووز( پانی کے اندر اُگے ہوئے خاص قسم کے درخت جو زمین کے کٹائو کو روکنے کا مؤثر قدرتی ذریعہ ہیں) کا جتنا شاندار نظارہ اس طرح کر سکتے ہیں کسی اور طور ممکن نہیں۔
دو چار برس گزرے ہیں میں نے ان مینگرووز (Mangroves)کا جتنا لطف کمبوڈیا میں نام پنہہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع جھیل تنلے سیپ میں لیا تھا وہ ایک یاد گار تجربہ تھا اور اس کی یاد اب بھی دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہے۔ پہلے تو اس جھیل میں بڑی موٹربوٹ پر گھنٹوں لطف لیا۔ اس دوران اس ڈھائی سو کلو میٹر لمبی اور سو کلو میٹر کے لگ بھگ چوڑی جھیل میں تیرتے ہوئے گائوں کی سیر کی۔ سارے کا سارا گائوں ہی پانی میں تیر رہا تھا اور ایک عدد پگوڈ ابھی اس کا حصہ تھا۔ ایک ریستوران میں کافی سے لطف لیا اور ایک پرائمری سکول میں گھومے اور بچوں سے ملے۔ درمیان میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر اترے جو مینگرووز سے گھرا ہوا تھا۔ وہاں ایک بالکل پتلی اور چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ کر ان مینگرووز کے اندر بنے ہوئے تنگ سے راستوں کے درمیان سے گزرے۔ درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے بعض جگہوں پر باقاعدہ کشتی میں لٹینا پڑا کہ ان چھوٹے چھوٹے لیکن بے تحاشا پھیلے ہوئے درختوں کی شاخیں اور جڑیں اتنی نیچی تھیں کہ سر سے ٹکراتی تھیں۔ ادھر بھی دریا کے کنارے پر بہت سی جگہوں پر مینگرووز اپنی چھب دکھلا رہے تھے۔ پاکستان میں ٹھٹھہ سے تھوڑا پرے‘ جہاں دریائے سندھ بحیرۂ عرب میں گرتا ہے وہاں خاصا بڑا ڈیلٹا بنتا ہے اور یہ سار ڈیلٹا مینگرووز سے پٹا پڑا ہے۔ سندھ میں تقریباً پندرہ لاکھ ایکڑ پر مشتمل مینگرووز جنگل دنیا میں خشک علاقے میں پایا جانے والا سب سے بڑا مینگرووز جنگل ہے لیکن بہت کم پاکستانیوں کو اس کا علم ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا سندربن مینگرووز جنگل یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ فہرست میں شامل ہے۔
معاف کیجئے بات کہیں اور چلی گئی تاہم یہ اسی موضوع سے جڑی ہوئی تھی اس لیے یاد آ گئی۔ ڈائنٹری رین فاریسٹ بھی یونیسکو کی جانب سے ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اور اسے تحفظ حاصل ہے۔ یہ جنگل تقریباً اٹھارہ کروڑ سال پرانا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ ایمیزون کے استوائی رین فاریسٹ سے بھی دو کروڑ سال زیادہ پرانا ہے۔ کبھی یہ جنگل پورے آسٹریلیا میں پھیلے ہوئے تھے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو گئے۔ اب یہ جنگل آسٹریلیا کے کل رقبے کے 0.12 فیصد حصے پر موجود ہے اور اس کو کاٹنا‘ چھیڑنا یا نقصان پہنچانا سختی سے ممنوع ہے۔ موٹر بوٹ کا نا خدا بتا رہا تھا کہ اس رین فاریسٹ میں‘ جو صرف 1200 مربع کلو میٹر کے علاقے میں ہے‘ پودوں کی تقریباً تین ہزار اقسام پائی جاتی ہیں‘ جبکہ پورے یورپ میں پودوں کی کل اقسام کی تعداد تقریباً 1800کے لگ بھگ ہے۔
محض 0.12 فیصد رقبے پر پھیلے ہوئے اس برساتی جنگل میں آسٹریلیا میں پائی جانے والی چمگادڑوں اور تتلیوں کی 90 فیصد تعداد ہے۔ ملک کے سات فیصد پرندے‘ حشرارت الارض کی 12 ہزار اقسام اور 30فیصد سے زیادہ مینڈک یہاں پائے جاتے ہیں۔ اس جنگل سے بارش کے پانی کے اخراج کا بنیادی ذریعہ دریائے ڈائنٹری ہے جبکہ ذیلی دریائوں میں دریائے بیرن‘ دریائے موسمین اور دریائے بلوم فیلڈ شامل ہیں۔ دریائے بیرن لہراتا ہوا اس جنگل کے درمیان سے گزرتا ہے اور اس میں چلتی ہوئی موٹر بوٹ جیسے ہی دریا کے ساتھ موڑ مڑتی تھی ایک نیا منظر نامہ سامنے کھل جاتا تھا۔ ایسا سر سبز اور گھنا جنگل کہ دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک سی پڑ جائے۔ قارئین! معاف کیجئے گا آپ پھر کہیں گے کہ یہ بندہ ہر چیز کا موازنہ پاکستان سے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ آخر میں یہ موازنہ کیوں نہ کروں؟ کیا ہم اپنے انحطاط پر صدائے احتجاج بھی بلند نہ کریں؟ کیا ہم اپنے نقصان پر آواز بھی اٹھائیں؟ کیا اپنی خرابیوں کا رونا بھی نہ روئیں؟ اس ترقیٔ معکوس کو اپنا مقدر اور اس روز افزوں خرابی کو اپنی قسمت جان کر مطمئن ہو جائیں؟ اور ان تمام تر خرابیوں کو دور کرنے کی امید تک سے بھی دستبردار ہو جائیں؟
درخت اور جنگل محض خوبصورتی نہیں‘ زندگی ہیں‘ دنیا بھر میں درختوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنے کی تگ و دو جاری ہے لیکن ہمارے ہاں سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ جنگلات جو پہلے ہی خطرناک حد تک کم رقبے میں ہیں‘ ہر گزرتے دن مزید کم ہو رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر عشروں سے جاری شجر کاری کی مہمات صرف اور صرف اس کام پر مامور محکموں کے افسروں اور ملازموں کیلئے سونے کی کان ثابت ہوئی ہیں لیکن ان کے حقیقی اثرات اور فوائد کبھی حاصل نہیں ہو سکے۔ ایک وقت تھا پاکستان میں جنگلات کا رقبہ کل ملکی رقبے کا 20فیصد تھا‘ جو مسلسل کم ہوتا گیا۔ 2000ء میں یہ رقبہ 5.9 فیصد تھا لیکن آج چوبیس سال بعد یہ رقبہ بجائے بڑھنے کے بجائے مزید کم ہو کر 4.8 فیصد رہ گیا۔ یعنی گزشتہ 24 سال میں مزید 1.1فیصد رقبہ کم ہوا ہے۔
پاکستان کا کون سا جنگل ہے جو تباہی اور بربادی کا شکار نہیں ہے۔ اوپر سے ماہرین ایسے ہیں جنہیں آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ جنگل اگر مقامی درختوں پر مشتمل ہوں گے تو نہ صرف پھلیں پھولیں گے بلکہ ان کی Sustainability یعنی قائم رہنے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہوگی لیکن ہمارے Horticulturist یعنی فنِ باغبانی کے ماہرین نے شجر کاری کا سب سے آسان طریقہ یہ دریافت کیا کہ جلد بڑھنے اور دکھائی دینے والے درخت لگا کر اپنے نمبر ٹانک لیے جائیں خواہ وہ درخت اس ملک کی آب و ہوا اور ماحول کیلئے کتنے ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں‘ ان کو اس سے کچھ غرض نہیں۔ اسلام آباد کو جنگلی شہتوت نے برباد کر دیا۔ شاہراہوں کے کنارے لگے ہوئے پانی کے دشمن سفیدے کے درختوں نے سائے کا بیڑہ غرق کر دیا اور نہروں کے کنارے پاپولر کے درختوں نے سارا ماحول خراب کردیا۔ یہ وہ درخت تھے جو ہماری سرزمین کیلئے تھے ہی نہیں۔ کسی زمانے میں شاہراہوں کے کنارے شیشم‘ کیکر‘ پیپل اور بڑ وغیرہ ہوتے تھے جو کئی نسلوں تک کام آنے والے درخت تھے۔ اب ایسے درخت لگائے جا رہے ہیں جو ماحول کو برباد کرنے‘ پانی چوسنے اور بلاوجہ گر کر راستے میں رکاوٹ بننے کا باعث ہیں۔ ہمارے سائنسدانوں‘ انجینئروں اور دیگر ماہرین کو آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس ملک میں کون سی چیزیں ہونی چاہئیں۔ عمارتیں اس ملک کے موسم کے مطابق نہیں بن رہیں۔ فصلوں کیلئے بیج ملکی موسم میں آنے والی تبدیلیوں کے مطابق نہیں بن رہے اور درخت اس ملک کی سرزمین اور ماحول کے مطابق تیار نہیں ہو رہے۔ اللہ ہی اس ملک کو چلا رہا ہے وگرنہ کوئی حال نہیں۔ ہم نے تو اپنے وہ معاملات بھی اللہ کے سپرد کر رکھے ہیں جن کا اختیار اور ذمہ اس مالکِ کائنات نے ہمیں تفویض کیا ہوا ہے۔