26ویں آئینی ترمیم نے دستور کے ایسے ایسے حافظ پیدا کر دیے ہیں کہ قانون وانصاف کی دنیا دنگ رہ گئی۔ دستور والی ''د‘‘ کو جھال چکی کی مکس لذیذ دال سمجھ کر ایسے ایسے تڑکے لگائے گئے کہ ثابت ہوا عالمی تنازعات وجغرافیائی سرحدوں کے مسائل ان خاص دماغوں کے بغیر کوئی حل نہیں کر سکتا۔ زرمبادلہ کی کمی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے ان زرخیز ذہنوں کو فوراً کسی ترقی یافتہ ملک میں ایکسپورٹ کر دینا چاہیے۔ اندازہ لگائیں جو آئینی مسودہ انہوں نے دیکھا تک نہیں‘ اُس کو عوام کی شدید ضرورت بنا کر ایسی کہانیاں گھڑی گئیں جیسے آئینی ترمیم آتے ہی عوام کے مسائل لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم کی طرح آہنی بھٹی میں بھسم ہو جائیں گے۔
جمعرات کے پچھلے پہر سرکار کے ذیلی دربار سے اعلان ہوا 26ویں آئینی ترمیم کا بل جمعہ کے روز سینیٹ آف پاکستان میں پیش کیا جائے گا۔ کون نہیں جانتا حکومت کے پاس ایوانِ بالا میں آئینی ترمیم کے لیے بنیادی شرط یعنی دو تہائی اکثریت موجود نہیں ۔ اس ترمیم کو لوہے کے ڈنڈے سے منظور کروانے کی جو ریہرسل پچھلے تین ہفتوں سے جاری ہے اُسے پوری قوم نے دیکھا ‘سنا اور محسوس کیا۔ کچھ ممبرانِ اپوزیشن کو اغوا کیا گیا‘ کئی ایک کے بچے اٹھا لیے گئے‘ جس پر BNP کی سینیٹر نسیمہ احسان اس آئینی نہیں بلکہ 'آہنی ترمیم‘ میں ووٹ کے لیے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ایوان میں رو پڑیں۔ پھر سردار اختر مینگل نے آفیشل پوسٹ کے ذریعے یہ ہولناک انکشافات کیے کہ کل سینیٹر نسیمہ کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا۔ ان کی رہائش گاہ پارلیمنٹ لاجز کے C بلاک کو مسلح اہلکاروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ جمعرات صبح 6 بجے سینیٹر صاحبہ کے شوہر کو پارلیمنٹ لاجز سے اُٹھا لیا گیا۔وہ بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہ چکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بہو اور زین قریشی کی بیگم صاحبہ کو بھی اغوا کیا گیا۔ اسلام آباد کے سرکاری حلقے دعویٰ کر رہے ہیں‘ پی ٹی آئی کے تین مغوی ایم این ایز کو سیدھا ایوان میں حکومتی بنچوں پر ووٹ ڈالنے کے وقت برآمد کیا جائے گا جبکہ چوتھے ایم این اے پر کام جاری ہے۔ اُس کے بیٹے کو کئی ہفتے پہلے لاپتا کر دیا گیا مگر ان حلقوں کے مطابق وہ اب بھی ووٹ کے معاملے پر 50‘50 ہے۔
یہ ہے ایک چھوٹی سی جھلک اسلامی جمہوریہ کے آئین میں تبدیلی کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں کی۔ جس کے لیے لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے اس کا خواب دیکھا تھا۔ لاحول ولا قوۃ۔
1973ء کے متفقہ آئین میں وَن یونٹ توڑ کر ملک کو فیڈریشن بنایا گیا۔ اس فیڈریشن کو چلانے کے لیے آئین کے باب 3 (Special Provisions) میں آرٹیکل 153 ڈالا گیا جس کے ذریعے کونسل آف کامن انٹرسٹ تشکیل پائی۔ اس کونسل میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے سال 2010ء میں آرٹیکل 154 میں ذیلی آرٹیکل نمبر 1 کا اضافہ کیا گیا جس میں کونسل کے فرائض اور اُن ذمہ داریوں کے رولز اور پروسیجر کو لکھا گیا‘ جس کے الفاظ یہ ہیں:
Article 154 (1) The Council shall formulate and regulate policies in relation to matter in part II of the Federal Legislative List and shall exercise supervision and control over related institutions.ٰٰ
ہمارا دستور Inclusive Document ہے جس کی بنیاد فیڈریٹنگ یونٹس کے درمیان NFC کے ذریعے وسائل کی تقسیم سے طے ہوتی ہے‘ جبکہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے ذریعے وفاق کے وہ امور جن سے فیڈریشن میں بسنے والے 25 کروڑ لوگوں کی زندگیوں پر اثر پڑے‘ ایسی قانون و دستور سازی کونسل کی منظوری کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کی جا سکتی۔CCI میں چاروں صوبوں کے چیف ایگزیکٹو مستقل ممبر ہیں۔ ظاہر ہے 25 کروڑ لوگوں کی نمائندگی کے لیے آئین سازی کی بنیادی شرط‘ ترمیم پر فیڈریشن کے تمام یونٹس کا اتفاق ہے۔اسی آرٹیکل کے ذیلی آرٹیکل 7 میں وفاقی اکائیوں یا وفاقی حکومت کا کوئی فریق اگر کونسل کے فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو وہ اسے مباحثے اور فیصلے کے لیے وفاقی پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں لے جانے کا حق رکھتا ہے۔
اس مختصر تمہید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ملک کے آئین میں کوئی تبدیلی کرنی ہو تو ایسی ترمیم کی تجویز سب سے پہلے CCI میں جائے گی‘ جہاں چاروں صوبوں کے چیف ایگزیکٹو بیٹھنے کا آئینی حق رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے آئین میں جب بھی کوئی ترمیم ہوئی‘ ماسوائے مارشلائی ترامیم کے‘ اُس پر CCI اور وفاقی یونٹوں کو نہ صرف اعتماد میں لیا گیا بلکہ اُنہیں پوری طرح سے مطمئن کرنے کے بعد ترمیم پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہنچی۔ المیہ نما لطیفہ یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے یا کچھ ضمیر فروش لوٹوں نے اس آئینی ترمیم پر ووٹ دینا ہے اُنہیں پتا ہی نہیں آئین میں ہونے والی ترامیم ہیں کیا۔ اس طریقہ کار کے مطابق آئین میں ہونے والی ترمیم وفاق کی جڑوں میں پانی دینے اور صوبائی خود مختاری پر کھلے حملے کے مترادف ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ نے شہباز دور میں 77 بِل پاس یا کنسیڈر کیے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بل کے بارے میں بھی یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اقتدار میں آنے والوں کی چوریاں چھپانے کے علاوہ ہو۔
اسلام آباد میں مزید دو بڑے واقعات تین دن مسلسل ہوئے۔ ایک شنگھائی کانفرنس جس کا نتیجہ فوٹو سیشن اور روایتی اعلامیہ نکلا۔ دوسرا واقعہ حیران کر دینے والا تھا۔ اسلام آباد میں موجود درجنوں پرائیویٹ کالجز اور پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے بچے سٹوڈنٹس فسیلیٹی نما سنگل کمروں میں رہتے ہیں۔ تین دن اسلام آباد کے تمام سیکٹروں میں ہزاروں اہلکار کھانے پینے کی دکانوں کو بند کرانے کی شاندار ڈیوٹی دینے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس دوران ہر قسم کے ریسٹورنٹس کافی شاپ‘ ڈھابہ کھابہ اور چھابہ‘ ریڑھی‘ بسکٹ اور کولڈ ڈرنکس کی دکانیں اور تمام پٹرول پمپس‘ ان کا یوں محاصرہ ہوا جیسے یہاں دہشت گرد گھس بیٹھئے کھانے پینے کی چیزوں کے لیے آئیں گے۔ اسلام آباد میں تین دن ہزاروں طلبہ وطالبات ویران سڑکوں پر گھومنے پر مجبور رہے۔ جس نے چھپا کر پاپڑ بیچا‘ اُس نے پانچ سو روپے لیے۔ اسلام آباد میں ہنگر گیم‘ کانفرنس اور آہنی پیکیج کی ان جھلکیوں نے فیض احمد فیض کی یاد دلا دی۔
جن کا دیں پیرویٔ کذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے جرأتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سر نہاں جان تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے