امریکی صدر بارک اوباما بھارت کا دورہ کرنے کے بعد سعودی عرب گئے جہاں انہوں نے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی رحلت پر تعزیت کی۔ 26جنوری کو انہوں نے بھارت کے ریپبلک ڈے پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور فوجی پریڈ کی سلامی بھی لی تھی۔ صدر اوباما کے دورۂ بھارت کے سلسلے میں غیر معمولی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے تاکہ کسی قسم کی دہشت گردی کا واقعہ پیش نہ آسکے۔ دہلی کی گلیوں اور محلوں میں پولیس کے دستے رات دن گشت کررہے تھے اور مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا جارہا تھا، جن میں زیادہ تر تعداد مسلمان نوجوانوں کی تھی جو نریندرمودی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ امریکی صدر کا بھارت کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ وہ 2010ء میں ممبئی گئے تھے، جہاں انہوںنے تاج محل ہوٹل کی ازسرنو تعمیر اور تزین و آرائش کے بعد اس کا افتتاح کیا تھا۔ واضح رہے کہ 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردوں نے تاج محل ہوٹل کو بھی اپنی تحریب کاری کا نشانہ بنایاتھا جس میں کئی ملکی اور غیر ملکی افراد مارے گئے تھے، اور ہوٹل کی عمارت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تھی۔ اب امریکی صدر نے دوبارہ بھارتی وزیر اعظم کی دعوت پر بھارت کا دورہ کیا ہے۔ ان کے اس دورے سے بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہوئی ہے اور معاشی وسیاسی لحاظ سے بھارت امریکہ کا گلوبل پارٹنر بن گیا ہے۔ امریکہ کے صدر نے بھارتی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو یقین دلایا ہے کہ بھارت کی معیشت کے فروغ میں امریکہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، ماضی کی طرح نیوکلیئر پروگرام میں امریکہ بھارت کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیںکرے گا، امریکی صدر نے بھارت کے ساتھ دفاعی شعبے میں دس سال کا معاہدہ کیاہے جس کے تحت امریکہ اپنا جدید حربی اسلحہ بھارت کو فروخت کرتا رہے گا اور اس کے روایتی اسلحہ کو جدید بنانے میںامریکی دفاعی ماہرین تعاون کریں گے۔ سول نیو کلیئر معاہدہ جو چھ سال سے منجمد تھا، اسے فعال کرکے امریکہ کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی بہ آسانی بھارت کو دستیاب ہوسکے گی۔ اس طرح امریکہ نے بھارت کو وہ سب کچھ دے دیا ہے جس کی طلب بھارت کو تھی جو اب بارک اوباما کے دورہ بھارت سے پوری ہوئی ہے۔ دہشت گردی کا معاملہ بھی نریندرمودی اور امریکی صدر کے مابین زیربحث آیا جس میں ممبئی کے واقعہ کو دہراتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ جو عناصر اس میں ملوث تھے، انہیں عدالت کے کٹہرے میںلاکر انصاف کے تقاضا کو پورا کیا جائے۔ یقینا بارک اوباما کے دورۂ بھارت سے امریکہ اور بھارت کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے، اور اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ یہ دونوں ممالک مل کر اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ ہر چند کہ امریکی صدر نے بھارت روانگی سے قبل یہ کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ دوستی ، مفاہمت اور گلوبل پارٹنرشپ کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، لیکن پاکستان کے حوالے سے امریکی حکومت کے یہ خیالات پاکستان کو دھوکہ دینے کے مترادف ہیں۔ اب امریکہ بھارت کو وہ تمام سہولیات فراہم کرے گا جو اس کو پاکستان اور چین کے مقابل کھڑا کرکے اپنے سامراجی عزائم پورے کرا سکیں۔ مزیدبرآں اب پاکستان کی حکومت کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنے میںتاخیر سے کام نہیں لینا چاہئے۔ امریکی صدر نے اپنے دورۂ بھارت اور نریندرمودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کے علاوہ خطے کے دیگر ملکوں کو
واضح پیغام دیا ہے کہ بھارت امریکہ کا نہایت قابل اعتماد دوست ہے جس کے ساتھ ہر سطح پر باہمی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش جاری رہے گی۔ نیز بھارت کی سیاسی قیادت امریکی صدر کے اس کامیاب دورے سے پھولے نہیں سما رہی۔ آئندہ اس کا زور پاکستان کے خلاف ٹوٹے گا اور وہ پاکستان کو کمزور کرنے میں کسی قسم کی پس و پیش سے کام نہیں لے گا۔ یقینا یہ صورتحال پاکستان کے لئے آئندہ خاصی مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارت فی الوقت پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے روابط بھی قائم نہیں کرنا چاہتا، نریندرمودی اور اس کا قومی سلامتی کا مشیر اجیت دونوں مل کر ہر طرح سے پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں حضرات بھارت کی دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر آئندہ پاکستان کے خلاف ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لئے اب بھارت کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر زیادہ وقت برباد نہیں کرنا چاہئے، اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ سفارتی سطح پر بھارت کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم نے فوری طور پر امریکہ کے بھارت نواز رویے پر ناراضی یا نفرت پر مبنی رویے کا
اظہار کیا تو اس طرح پاکستان کے لئے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت انتہائی کمزور ہے۔ اس کے سامنے کوئی ویژن نہیں ہے، حکمران زیادہ تر توجہ اپنی تجارت اور دولت بڑھانے پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ بہر حال امریکہ نے بھارت کے ساتھ نئے تعلقات اور گلوبل پارٹنر شپ قائم کرکے پاکستان کے لئے صرف ایک ہی راستہ چھوڑا ہے کہ وہ امریکہ کی طرف دیکھنے کے بجائے چین سمیت ان دوست ملکوں کی طرف دست تعاون بڑھائے جو پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور دل سے پاکستان کا استحکام چاہتے ہیں۔ ایران ، سری لنکا، نیپال، ملائیشیا، انڈونیشیا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو ٹھیک کریں جس میں سب سے اولین شرط اچھی طرز حکمرانی کے ساتھ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ شامل ہے جس کی وجہ سے پاکستان بے پناہ مسائل میں گھر چکا ہے اور دشمن اس صورتحال سے فائدہ اٹھارہا ہے، ذرا سوچئے۔ بقول شاعر، فیض احمد فیض ؎
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست رقصاں چلو