امریکی صدر بارک اوباما کو اب اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے کہ انہوں نے خواہ مخواہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھارت کو مرکزی کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا تھا، اب امریکی صدر یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان سمیت اس پورے خطے میں پاکستان کا کردار ہی اہم ہے۔ انہوںنے کہا کہ امریکہ کی بھارت کے ساتھ دوستی پاکستان کے خلاف نہیں ہے، بلکہ پاکستان اور امریکہ کی دوستی بدستور آگے بڑھتی رہے گی، یقینا امریکی صدر کا یہ بیان بھارتی قیادت کی امنگوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ثابت ہوا ہے ، کیونکہ جب سے امریکی صدر نے بھارت کا دور کیا تھا، اور کئی سمجھوتوں پر دستخط بھی کئے تھے، بھارتی قیادت پاکستان کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز بیان جاری کررہی تھی بلکہ بھارت نے امریکی صدر کی بھارت یاترا کے دوران انٹرنیشنل بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ بڑھادیا تھا جس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ امریکہ بھارت کے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کی حمایت کررہا ہے ، لیکن اب امریکی صدر کے بیان کے بعد بھارت کو یہ سوچنا پڑے گا کہ پاکستان کے خلاف دشمنی نہ صرف بھارتی مفادات پر اثر انداز ہوسکتی ہے، بلکہ اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان سمیت اس خطے کے دیگر ملکوں کی کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس وقت جبکہ دہشت گردی کے خطرات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی بہادر افواج فاٹا میں دہشت گردوں
کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے نبرد آزما ہیں اور سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان کے عوام ، فوج، پولیس، اور رینجرز دے رہے ہیں۔ اُدھر بھارت کے اندر بھی مرکزی حکومت کے خلاف کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان تحریکوں کی وجہ سے بھارت کو بھی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اگر بھارت نے اس خطے میں دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کی حمایت نہیں کی تو اس خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ مزیدبرآں افغانستان میں بھارت کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے، بلکہ افغان طالبان‘ بھارت او ر امریکہ دونوں کی افغانستان میں موجودگی کو پسندید گی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ خود افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی‘ بھارت کی افغانستان میں موجودگی کو صرف معاشی حوالوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں نہ کہ پاکستان کے خلاف جیسا کہ ماضی میں حامد کرزئی کے زمانے میں بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی پھیلانے کے سلسلے میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حامد کرزئی کے پورے دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے سیاسی و معاشی تعلقات پیدا نہیں ہوسکے بلکہ کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ کسی بھی وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے گی، لیکن اب افغانستان میں
نئی حکومت کے قیام کے بعد ان دونوں ملکوں کے درمیان حالات آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔ امریکہ اس حقیقت کو بھانپ گیا ہے کہ افغانستان میں دیر پا اور پائدار امن کے سلسلے میں بھارت کا نہیں پاکستان کا کردار اہم ہے جبکہ بھارت افغانستان میں معاشی امداد اور ترقی کی آڑ میں قونصلیٹ کے ذریعے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں اور کرائے کے قاتلوں کو بھیج کر گڑبڑ کراتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی عسکری قیادت نے امریکی قیادت کو باور کرایا تھا کہ ایک طرف پاکستان اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور فوجی کاروائیاں کررہا ہے، تو دوسری طرف بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کی ان کوششوں کو سبوتاژ کررہا ہے، چنانچہ جب امریکی صدر نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران یہ جملہ ادا کیا کہ افغانستان میں بھارت کا مرکزی کردار ہے تو بھارتی قیادت ایک بار پھر پاکستان کے خلاف اپنے منصوبے تیار کرنے لگی‘ چنانچہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا ، لیکن جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ امریکی صدر نے اپنی غلطی محسوس کرلی ہے، اور کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے اور دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ امریکہ کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی سے پاکستان کو ناراض نہیں ہونا چاہئے بلکہ امریکہ کے ساتھ اپنے سفارتی، معاشی اور سیاسی تعلقات کو اور زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امریکہ اس وقت بھی دنیا کی واحد بڑی پاور ہے جو کمزورمعیشت کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں اپنی خارجہ ومعاشی پالیسیوں کے ذریعہ اثر انداز ہوسکتی ہے۔
امریکی صدر کے علاوہ چینی قیادت بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف چٹان بن کر غیر ریاستی عناصر کا مقابلہ کررہا ہے۔ اگر پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں اس خطے کے علاوہ بڑی طاقتوں سے مدد نہیں ملے گی تو دہشت گرد کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں بھارت بھی ان عناصر کی کارروائیوں سے نہیں بچ سکے گا۔ بھارت سمیت اگر کوئی ملک یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کمزور کیا جاسکتا ہے تو یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے، کیونکہ پاکستان گذشتہ دس پندرہ سالوں سے اپنوں اور غیروں کی مذموم کارروائیوں کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کررہا ہے، اور اپنی سالمیت اور خود مختاری کو قائم رکھنے کے لئے وہ تمام طریقے اختیار کررہا ہے جو اس کو طاقتور بنا سکتے ہیں، اور دہشت گردوں کی کمر توڑ سکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک امریکی سفارت کار کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا تو بھارتی وزیراعظم پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔ امریکی سفارت کار کا یہ بیان میرے لئے نیا نہیںہے۔ نریندرمودی جب سے انتہا پسند متعصب ہندوئوں کے ووٹوں کے ذریعہ بھارت کا وزیراعظم بنا ہے‘ کسی نہ کسی بہانے پاکستان پر فوج کشی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیا امریکی سفارت کار بھارت کی اس سوچ سے واقف نہیں ہیں؟ اور کیا بھارت کی سیاسی قیادت از خود بھارت کے اندر دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ کرا کے پاکستان پر حملہ کرنے کا جواز نہیں بنا سکتی؟ ماضی میں بعض ملکوں نے اپنے حریف ملکوں کے خلاف اس قسم کی سازشیں کی ہیں ، بھارت بھی انہی راستوں پر چل کر پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے، لیکن پاکستان کمزور نہیںہے، اگر ایسا ہوا تو پھر بھارت کو اس کا مزہ چکھنا پڑے گا ؎
جب ضرورت ہوئی جاں دی ہے اصولوں کے لئے
جذبۂ شوق مرے خون کی تاثیر میں ہے