ایران سے بجلی کا حصول

پاکستان میں اس وقت پانچ سے لے کر سات ہزار میگاواٹ تک بجلی کی کمی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہونے میں نہیں آرہی، بلکہ اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے حالیہ بیان میںکہا ہے کہ بجلی کی کمی آٹھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے، بجلی کی قلت تشویشناک صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ کچھ دنوں بعد جب گرمیوں کا آغاز ہوگا تو بجلی کی شدید کمی کے باعث‘ لوڈشیڈنگ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ لوڈشیڈنگ سے صنعت اور زراعت دونوں شعبے متاثر ہوں گے‘ جبکہ عوام بھی بجلی نہ ملنے کی صورت میں بہت زیادہ پریشان ہوں گے اور ایک بار پھر گرمی سے پریشان اور بپھرے ہوئے لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے۔ گزشتہ سال بھی بجلی کی قلت اور نارسائی کی وجہ سے پورے ملک میں ہنگامے ہوئے تھے، گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں اور کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے سے متعلق موجودہ حکومت نے جتنے بھی منصوبے شروع کئے ہیں ان کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں بلکہ بعض منصوبے تو محض ابھی تک کاغذی کارروائی سے آگے نہیں بڑھے۔ خود میاں صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ نئے بجلی گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں ان کے پاس مالی وسائل ہی نہیں، اس لئے بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے سلسلے میں ایران کی پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے تاکہ شروع ہونے والے موسم گرما میں عوام کے علاوہ صنعت کاروں اور کسانوں کو کچھ سہولتیں مل سکیں۔
ایران 3000میگاواٹ بجلی انتہائی آسان شرائط پر پاکستان کو دینے کو تیار ہے۔ اگر بجلی کے حصول کے سلسلے میں ایران کے ساتھ معاہدہ ہو جائے تو یہ بجلی نیشنل گرڈمیں شامل کرکے پورے پاکستان کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ ایران پہلے ہی بلوچستان کے جنوبی حصوں کو بجلی فراہم کرکے عوام کو بہت زیادہ سہولتیں پہنچا رہا ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایرانی حکام کو پاکستان مدعو کریں اور ایران کی پیش کش پر تفصیلی بات چیت کرکے کسی حتمی نتیجہ پر پہنچیں؛ ایران سے بجلی کے حصول پر زیادہ اخراجات نہیں آئیں گے، کیونکہ ایران اور پاکستان کا زمینی فاصلہ چند سو میل سے زیادہ نہیں۔ بعض با خبر افراد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ حکومت ایران کی اس آفر کو قبول کرنے میں پس وپیش کا مظاہرہ کرے گی، کیونکہ امریکہ فی الوقت پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہواہے۔ امریکہ نے ایران پر ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ دوسری طرف
پاکستان کی کمزور حکومت ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے پیش نظر ایران کی بجلی کی پیش کش کو مسترد کر سکتی ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو امریکی دبائو میں آ کر تقریباً مسترد کردیا تھا، ورنہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوجاتا تو پاکستان کو بہت ہی سستی گیس دستیاب ہوسکتی تھی، جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بہت بڑا سہارا ہوتا۔ امریکہ کے سٹریٹیجک پارٹنر اور ہمارے ہمسائے بھارت کے ایران کے ساتھ نہایت اچھے اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ بھارت ایران سے سب سے زیادہ تیل خریدنے والا ملک ہے، اُسے اس بات کی پروا نہیں کہ امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ جبکہ ہماری حکومت امریکہ کی جی حضوری میں آہستہ آہستہ اپنی اقتصادی خود مختاری کھوتی جارہی ہے۔ اگر امریکہ کو پاکستان کی مجموعی معاشی ترقی سے اتنی ہی دلچسپی ہوتی تو وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو سبوتاژ نہ کرتا لیکن ایسا ہوا ہے۔ ایران سے اگر بجلی کی ترسیل کا معاہدہ ہوجائے تو پاکستان میں بجلی کے بحران میں پچاس فیصد کمی واقع ہوجائے گی اور حکومت بھی کسی حد تک عوامی مظاہروں سے بچ جائے گی۔ میاں نواز شریف کو اس ضمن میں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئے،ایران کی پاکستان کے لئے بجلی کی پیش کش کو سبوتاژ کرنے کے لئے امریکہ نے ایک بار پھر تاپی معاہدے کا ذکرکرنا شروع کردیا ہے۔ یہ منصوبہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان ، ترکمانستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان زیر غور رہا ہے، لیکن افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور افغان طالبان کی سرگرمیوں کی وجہ سے ابھی تک اس پر عمل شروع نہیں ہوسکا۔ اس منصوبے پر 7.6بلین ڈالر خرچ ہوں گے جبکہ زمینی فاصلہ 1,680 کلومیٹر ہوگا جو افغانستان سے گزرتا ہوا پاکستان آئے گا۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو اس کے ذریعے پاکستان، افغانستان اور بھارت کو 3.2بلین کیوبک فٹ گیس مل سکے گی جو ان ممالک کی اقتصادی ترقی میںنمایاں کردار ادا کرے گی۔ چونکہ ابھی تک
افغانستان میں حالات بہتر نہیںہوئے ہیں،افغان طالبان کی مرکزی حکومت کے خلاف جنگ جاری ہے۔ اس لئے اس پروجیکٹ کا شروع ہونافی الحال نظر نہیںآرہا۔ مزیدبرآں اگر افغانستان میں حالات بہتر بھی ہوگئے تب بھی اس پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اس لئے موجودہ حکومت کو ''تاپی‘‘ پروجیکٹ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، شارٹ ٹرم بنیاد پر ایران کی بجلی کی پیش کش قبول کرلینا چاہئے بلکہ اس سلسلے میں زیادہ سرعت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لئے آئندہ چند سال توانائی کے حصول کے سلسلے میں نہایت ہی اہم ہیں۔ اگر فوری طور پر توانائی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا تو پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں بہتری نہیں آسکتی۔ نہ ہی عوام کے معیار زندگی پر کوئی فرق پڑے گا، اس لئے بہتر اور مناسب راستہ یہی ہے کہ ایران کی آفر قبول کرلی جائے تاکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے علاوہ معاشی ترقی کے راستے کھل سکیں، امریکہ خود تو ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کررہا ہے، بلکہ جلد کسی نتیجہ پر پہنچ بھی سکتا ہے‘ لیکن پاکستان کو منع کررہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ بجلی یا گیس کے سلسلے میں کوئی معاہدہ نہ کرے۔ واہ! ہمارا چمن بربادرہے اور غنیم کے چمن میں بہار مسکراتی رہے، ذرا سوچئے؟ ع ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں