کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن

گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم نواز شریف نے ملک بھر سے آئے صحافیوں اور سیاست دانوں کے سامنے کراچی میں بلا امتیاز، بلا تفریق ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ تاجروں نے بھی اس کی حمایت کی؛ کیونکہ کراچی میں پھیلتی ہوئی بدعنوانی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے جہاں عام شہری پریشان اور ہراساں تھے، وہیں شہر میں معاشی سرگرمیاں آہستہ آہستہ ماند پڑتی جارہی تھیں۔ پاکستانی سرمایہ باہر جارہا تھا، جہاں انہیں تحفظ حاصل تھا؛ چنانچہ یہی وہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوا تاکہ پاکستان کی معیشت کو رواں دواں رکھنے والے سب سے بڑے شہر کو بچایا جاسکے۔ کراچی اوراندرون سندھ کی تمام سیاسی پارٹیوں بشمول پی پی پی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، اے این پی، متحدہ مجلس عمل وغیرہ نے آپریشن کا خیر مقدم کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کا بھر پور اظہار کیا۔ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران کئی خطر ناک جرائم پیشہ عناصر پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے یا پھر گرفتار‘ جن پر مقدمات چل رہے ہیں۔ آپریشن کے دوران پولیس افسران اور رینجرز کے اہل کار بھی شہید ہوئے اور اب بھی انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے؛ تاہم کچھ عرصے کے بعد ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا کہ یہ آپریشن اس کے خلاف کیا جارہا ہے۔ لیکن جب پولیس کے سینئرافسران اور رینجرز نے صحافیوں کو اعدادو شمار کی روشنی میں بتایا کہ یہ آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کیا جارہا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت
سے ہو تو بات آئی گئی ہوگئی۔ اسی دوران ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر رینجرزنے بعض اطلاعات کی روشنی میں فجر کے وقت چھاپہ مارا اور کئی ٹارگٹ کلرز اور بھاری اسلحہ بھی برآمد کرلیا۔ ایک ٹارگٹ کلر نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ اس نے ایم کیو ایم کی مخالفت کرنے والے ایک سو بیس افراد کو قتل کیا؛ تاہم الطاف حسین نے واضح طورپر کہا ہے کہ ''وہ اس شخص کو نہیں جانتے اگر اس نے ایسا جرم کیا ہے اور وہ عدالت میں ثابت ہوجائے تو اُسے پھانسی پر لٹکادیاجائے‘‘۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ نائن زیرو پر رینجرز کے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے کسی کارکن یا رہنما نے مزاحمت نہیں کی۔ نیز ایم کیو ایم کے اہم عہدیداران نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کا احترام کرتے ہیں، اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ الطاف حسین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ''سکیورٹی اداروں کے ساتھ ٹکرانے کا درس دینے والوں کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ ایم کیو ایم میں کوئی عسکری ونگ نہیں‘‘، ایم کیو ایم کے اس قسم کے بیانات اس کی سیاسی پختگی کا ثبوت فراہم ہیں، ماضی میں ایم کیو ایم نے سندھ میں بگڑتی ہوئی سیاسی و معاشی صورتحال کے پیش نظر سندھ میں مارشل لا ء لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کی پی پی پی کے بعض رہنمائوں نے مخالفت کی تھی، اور کہا تھا کہ ایم کیو ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لئے مارشل لاء لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم سمیت کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے خدشات جلد دور کریں گے، جرائم پیشہ عناصر کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا ایم کیو ایم سے ہو ان کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے۔ اس سے قبل اسی قسم کے خیالات کا اظہار چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کراچی میں لا اینڈ آرڈر سے متعلق اجلاس کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے کہا ''کراچی اور اندرون سندھ سمیت جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کسی حد تک جاسکتے ہیں‘‘؛ چنانچہ طے ہے کہ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی‘ اس کے شہریوں اور اس کی معاشی قوت کو تحفظ دینے کے سلسلے میں آپریشن تکمیل تک جاری رہے گا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں کراچی میں بدامنی ، قتل وغارت گری اور بھتہ خوری کو پھیلا کر وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان دشمن ملکوں اور طاقتوں نے اگر کراچی کو معاشی و تجارتی طورپر تباہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق ایک ٹارگٹ کلر سے پوچھا گیا کہ وہ کراچی میں بے گناہ لوگوں کو کیوں قتل کرتا ہے تو اس کا جواب تھا: ہمیں بتایا گیا ہے کہ اگر کراچی میں افراتفری پیدا کردی جائے تو پاکستان کی معیشت تباہ وبرباد ہوسکتی ہے؛ چنانچہ اہم صنعت کاروں اور سماجی تنظیموں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتوں میں یہ صحیح کہا تھا کہ کراچی میں بیرونی عناصر پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جن میں پاکستانی طالبان سرفہرست ہیں‘ جنہوں نے کراچی کے مضافات میں پناہ لے رکھی ہے، یہ عناصر وقتاً فوقتاً کراچی میں مختلف النوع جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، حال ہی میں رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کرکے ان کے ایک امیر اور دیگر ساتھیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ پاکستانی طالبان کراچی سے بھاگ رہے ہیں، کیونکہ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ اب آپریشن رکنے والا نہیں۔
کراچی اور اندرون سندھ کے معاشی ، سیاسی وثقافتی حالات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں صوبے کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک جامع پروگرام تشکیل دینا چاہئے۔ اس طرح بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہوسکے گی اور حکومت کو ترقیاتی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکے گا، کیونکہ پی پی پی کی موجودہ حکومت سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ اُس کے بیشتر وزراء مبینہ طورپر کرپشن میںملوث ہیں یہی وجہ ہے کہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب تک کراچی سمیت اندرون سندھ نئے معاشی پروجیکٹس نہیں لگیں گے نہ تو بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے، اور نہ ہی چوری چکاری۔ مزید برآں سندھ کے موجودہ سیاسی حالات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق صوبے میں بلدیاتی انتخابات جلد کرادینے چاہئیں۔ شنید ہے کہ ستمبر تک ایسا ممکن ہوسکے گا۔ ماضی میں حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے سے جان بوجھ کر گریز کیا۔ صوبائی بجٹ میں اس سلسلے میں مختص کئے جانے والے فنڈز کرپشن کی نذر ہوگئے، اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ بلدیاتی اداروں کے قیام سے ضروری سماجی ومعاشی مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ نیز گھریلو صنعتیںلگنے سے معاشی سرگرمیاں بھی شروع ہونے لگتی ہیں۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے اگر صوبائی حکومت سندھ کے عوام کے ساتھ غفلت اور لاتعلقی کا مظاہرہ کرتی رہے گی، جیسا کہ کررہی ہے، تو سندھ میں گورنر راج کون روک سکے گا۔ پڑوسی ملک کے کئی صوبوں میں ایسا کئی بار ہوا ہے،مقبوضہ کشمیر میں کم از کم چھ مرتبہ گورنر راج لگ چکا ہے۔ صوبہ سندھ میں بھی اگر ایسا ہوجائے تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں