پاکستان میں جنسی تشدد سے متعلق مختاراں مائی کا افسوسناک واقعہ سب کو معلوم ہے۔ اس کی تشہیر ان طاقتوں نے کی تھی جن کا بنیادی مقصد پاکستان کو بد نام کرنا تھا اور دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ پاکستان میں جنسی تشدد ایک عام سی بات ہے اور جہاں خواتین کو اپنے بچائو کے سلسلے میں کسی قسم کا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے؛ تاہم حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ پاکستان میں عورتیں جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں۔ یہاں خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات خال خال ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت ہے جس کا دارالخلافہ دہلی ہے جسے بھارتی اخبارات Rapist Capital of Indiaکہتے ہیں۔ اب دہلی کا ساری دنیا میں اسی نام سے تشخص قائم ہوگیا ہے۔ دہلی میں ہر بیس منٹ کے بعد کسی لڑکی یا شادی شدہ عورت کا جنسی استحصال کیاجاتا ہے، جس میں بیشتر ''حملہ آور‘‘ گرفتار نہیںکئے جاتے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جو لڑکی یا خاتون جنسی تشدد کا شکار بنتی ہے، اس کے خاندان والے اس سے متعلق رپورٹ کسی تھانے میں درج کرانے سے گریز کرتے ہیں‘ محض اس وجہ سے کہ خاندان کی بدنامی ہوگی۔ اسی معاشرتی خوف کی وجہ سے اور تھانے میں جنسی تشدد سے متعلق واقعات کی رپورٹ درج نہ کرانے کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ صرف دہلی میں ایسے جنسی تشدد کے بھیانک واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں‘ اس وقت دہلی سمیت بھارت میں 660ایسے مراکز قائم کئے گئے ہیں جو جنسی تشدد سے متعلق واقعات کا فوری طورپر نوٹس لے کر کوشش کرتے ہیں کہ جنسی تشدد کرنے والے کو گرفتار کیاجائے، لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات میں کمی نہیں آئی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو نریندرمودی کی حکومت کے لئے گہری تشویش کا باعث ہے۔ جیسا کہ میں نے بالائی سطور میںلکھا ہے کہ بھارت کی آبادی کی اکثریت قدامت پسند افراد پر مشتمل ہے جو اپنی بچیوں یا رشتہ دار خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات کے بعد تھانے میںجانا تو کجا‘ اپنے خاندان کے دیگر افراد سے اس سے متعلق بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کیونکہ اس طرح لڑکی بدنام ہوجاتی ہے اور کوئی مرد اس سے شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
دہلی میں جنسی تشدد کا گذشتہ سال ایک ایسا واقعہ ہواتھا جس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہوا یوں کہ میڈیکل کی ایک طالبہ اپنے دوست کے ساتھ فلم دیکھ کر سینما گھر سے جب باہر نکلی تو سامنے ایک مسافر بس کھڑی تھی ، جس میں چند افراد بیٹھے تھے، یہ دونوں بھی اس بس میں سوار ہوگئے ،چند منٹ چلنے کے بعد بس میں جو تین چار مسافر تھے وہ اتر گئے باقی بس کا ڈرائیور ، کنڈیکٹر اور اس کے ایک دوست بس میں بیٹھے رہ گئے، جنہوں نے ان دونوں کو گھورا اور اس کے بعد ان تینوں نے مل کر ان پر حملہ کردیا۔ لڑکے نے ان کی مزاحمت کی لیکن وہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکا، جسے انہوں نے زخمی کرکے سڑک کنارے پھینک دیا۔ اس کے بعد ان تینوں نے مل کر اس سہمی ہوئی لڑکی پر یکے بعد دیگرے جنسی تشدد کیا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئی۔ تشدد کرکے وہ اس لڑکی کو سڑک کے کنارے پھینک کر فرار ہوگئے۔ لڑکے کو جب ہوش آیا تو اس نے تھانے جاکر اس واقعہ سے متعلق پوری صورتحال کا ذکر کیا جس کے بعد پولیس نے اس لڑکی کو تلاش کرنے کے بعد فوراً ہسپتال پہنچایا جہاں اس کا کئی دنوں تک علاج ہوتا رہا ، لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا سکی۔ اس واقعہ کی میڈیا نے بڑی تفصیل کے ساتھ رپورٹنگ کی جس نے بھارت کے طول و ارض میں کہرام مچادیا ، دہلی کی سول سوسائٹی اور صحافیوں نے پارلیمنٹ کے سامنے زبردست مظاہرے کئے اور مجرموں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ سول سوسائٹی اور عوامی دبائو کے نتیجہ میں بس کے ڈرائیور‘ کنڈیکٹر اور دیگرمجرموں کو گرفتار کر لیا گیا، جہاں ان کے خلاف ایک تاریخی مقدمہ چلا اور انصاف کی روشنی میں سب کو پھانسی کی سزا دی گئی سوائے ایک لڑکے کے جو نا بالغ تھا تاہم اسے دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
بھارت میں اس موضوع یعنی خواتین پر جنسی تشدد سے متعلق حال ہی میں ایک فلم بنائی گئی ہے، جس میں بھارت میں خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی اس لڑکی اور لڑکے کے گرد گھومتی ہے، جن کو ایک مسافر بس میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، یہ فلم بھارت کے مختلف سنیما ہائوسز میں چل رہی ہے، لیکن بھارت سرکار نے خصوصیت کے ساتھ آر ایس ایس کے غنڈوں نے ان سینما ہائوسز کو دھمکی دی ہے کہ اس فلم کی نمائش بند کردی جائے۔ اس دھمکی اور خوف کے باعث بھارت کے بیشتر سینما گھر وں میں اس کی نمائش روک دی گئی ہے، لیکن بی بی سی نے اسے اپنے ایک چینل کے ذریعہ ناظرین کو دکھا کر بھارت میں خواتین پر جنسی تشدد کے خوفناک کلچر کو بے نقاب کیا ہے۔ اس فلم سے متعلق بی جے پی کی حکومت کے پارلیمانی وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ''یہ فلم بھارت کو بد نام کرنے کی ایک گہری سازش ہے‘‘، حالانکہ بھارت کا میڈیا اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ جو کچھ اس فلم میں دکھایا گیا ہے‘ وہ سچ ہے۔
بھارت میں خواتین کی معمولی سی آزادی بھارت کے قدامت پسند معاشرے کو پسند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پڑھی لکھی خواتین گھروں سے اچھے لباس زیب تن کرکے آفس کے لئے یا پھر اپنے گھریلو کام کاج کے لئے باہر نکلتی ہیں تو ان عورتوں پر جرائم پیشہ عناصر جنسی حملے کرنے میں قانون کی پروا نہیں کرتے۔ اس مسئلہ پر بھارت کے بعض اہل قلم کا خیال ہے کہ بھارتی فلموں نے عریانیت کو پھیلاکر جرائم پیشہ عناصر کو جنسی تشدد کے لئے اکسایا ہے۔ بھارتی فلمیں اور ان کی ہیروئنیں ہالی وڈ (امریکہ )کی اندھی نقل کرتے ہوئے ایسے لباس پہنتی ہیں جن میں عریانیت بہت زیادہ ہوتی ہے، جبکہ بھارت کی خواتین کا انداز ایسا نہیں ہے اور نہ ہی بھارت کی عورتیں ہالی وڈ کی ہیروئنوںکی طرح ایسے لباس پہنتی ہیں جس کی وجہ سے مردوں میں جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اگر بھارتی فلم ساز اپنی فلموں میں غیر ضروری عریانیت نہ دکھائیں تو بہت حد تک بھارت میں تیزی سے پھیلتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات میں کمی آسکتی ہے، لیکن اب بھارتی فلموں کا مزاج عریانیت کو دکھا کر زیادہ پیسے کمانے کا بنتا جارہا ہے، جس کی بھارتی معاشرہ خواتین پرآئے روز جنسی تشدد کے واقعات کی صورت میں بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ دوسری طرف حکومت جنسی تشدد کے رونما ہونے والے واقعات کو روکنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی معاشرہ عورتوں کے سلسلے میں اتنا غیرمحفوظ بن چکا ہے کہ اب عورتوں کی اکثریت نے رات کو گھروں سے نکلنا ہی بند کردیا ہے۔