حکومت نے یمن کے مسئلہ پر اے پی سی بلا کر اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور الطاف حسین نے بھی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس حساس مسئلہ پر اے پی سی بلائیں تاکہ سیاسی جماعتوں کا موقف معلوم ہوسکے۔ اس میں جو بھی فیصلہ ہو، اُس کی روشنی میں پارلیمنٹ اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایسا فیصلہ کیا جائے جو ہمارے قومی مفادات کے عین مطابق ہو۔ جہاں تک سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات کا تعلق ہے، تو وہ نہایت مضبوط ومستحکم بنیادوں پر قائم ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ہر مشکل میں پاکستان کی دامے‘ درمے‘ سخنے اور قدمے مدد کی ہے۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہوئے میزبان ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ مزید برآں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے بھی ہیں جن کے تحت ضرورت پڑنے پر خصوصیت کے ساتھ بیرونی جارحیت کی صورت میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں جس میں فوجی تعاون بھی شامل ہے۔ خدا کا شکر ہے ابھی تک ایسی نوبت نہیں آئی۔ جو کچھ یمن میں ہورہا ہے ،یقینا اس صورتحال پر سعودی عرب کو بہت زیادہ تشویش ہے،یہاں تک کہ یمن کے صدر منصور ہادی نے‘ جو صنعاء سے فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ لے چکے ہیں، سعودی حکام کو حوثی قبائل کے خلاف فی الفور کارروائی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے خلاف جلد کارروائی نہ کی گئی تو وہ پورے یمن پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ اطلاع کے مطابق حوثیوں نے یمن کے 20میں سے 14صوبوں پر قبضہ کرلیا ہے؛ تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ حوثیوںکا سعودی عرب کی سرحد عبور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کااصل مقصد پورے یمن پر قبضہ کرنا ہے۔ جس کے لئے وہ یمن کی حکومت کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ حوثی یا زیدی قبیلے کی‘ مرکز کے خلاف یہ تحریک نئی نہیں۔ اس سے قبل بھی وہ علی عبداللہ الصالح کے دور میں‘ اپنے معاشی و سیاسی حقوق کے لئے ایسا کرتے آئے ہیں۔ ان کوششوں میں انہیں ایران کی مدد بھی حاصل ہے؛ البتہ ایران کی مدد صرف ہتھیاروں کی سپلائی تک محدود ہے۔ ایران کا کوئی فوجی حوثیوںکے ساتھ مرکزی حکومت کے خلاف نہیں لڑرہا۔ حوثیوںکو اس جنگ میں یمن کے مختلف گروپوں کے علاوہ یمن کے سابق صدر علی عبداللہ الصالح کی بھی حمایت حاصل ہے، ان کے بہت سے ہم نواقبائل حوثیوںکے ساتھ مل کر مرکز کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ سعودی عرب یہ نہیںچاہتا کہ اس کے پڑوس میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جائے جو اُس کے خلاف ہو۔ لیکن یہ مفروضہ ہے؛ البتہ سعودی عرب نے اس مفروضے کے زیر اثر یمن کے اندرحوثیوںکے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنا شروع کردیئے ہیں؛ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب اور یمن کے مابین مذاکرات پر زور دیا ہے۔
سعودی عرب اور یمن کے مابین کشمکش سے انکل سام فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے،وہ سعودی عرب اور حوثیوں کے درمیان لڑائی کو شیعہ سنی تصادم سے تعبیر کررہا ہے۔ مغربی ممالک شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس، سعودی عرب کو حمایت کا یقین دلا کر مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے ایک اور محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ شاید عرب ممالک انکل سام کی چال کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اُن کے اصل دشمن وہ ہیں‘ جو آج اُن کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ حوثیوں نے ابھی تک کسی دوسرے ملک کے خلاف عسکری کارروائیاں نہیںکیں اور نہ ہی وہ مسلکی بنیادوں پر یمن کی مرکزی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ حوثیوں کے ساتھ عیسائی اور سنی بھی شامل ہیں جبکہ یمن میں اکثریت سنیوں کی ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کے تقریباً سبھی سیاست دانوں کی تعریف کرنی چاہئے ، خصوصیت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی‘ جنہوں نے کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ''عالمی سامراج ایک بار پھر پاکستان کو مشکل میں پھنسانا چاہتا ہے، عربوں کو اپنا فیصلہ خود کرنے دیں ‘‘ اسی قسم کی سوچ کا مظاہرہ پی ٹی آئی او ر پی پی پی نے بھی کیا ہے۔
جہاں تک وزیراعظم میاں نواز شریف کا تعلق ہے ان کے سعودی عرب کی طرف جھکائو کی سب سے بڑی وجہ سعودی شاہی خاندان کے ان پر ماضی میں کئے جانے والے احسانات ہیں۔ دس سالہ جلا وطنی کے دوران سعودی عرب کے شاہی خاندان نے ان کی نہ صرف اچھی طرح میزبانی کی بلکہ انہیں وہاں ایک منی سٹیل مل لگانے کی بھی اجازت دی۔یہی وجہ ہے کہ میاں
صاحب نے یہ اعلان کر دیا کہ ''پاکستان کے تمام وسائل سعودی عرب کے لئے حاضر ہیں‘‘! پاکستان کس طرح اپنی موجودہ حیثیت میں کسی دوسرے ملک کے مفادات کی جنگ میں شریک ہوسکتا ہے؛ جبکہ ملک کے اندر جاری دہشت گردی کی وجہ سے صورتحال نہ صرف خراب ہے بلکہ بلوچستان اور فاٹا میں ایسے عناصر سے پاکستان کی فوج اور پیرا ملٹری فورس لڑ رہی ہیں، جو غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں انکل سام کی خواہش پر پاکستان افغانستان کی جنگ میں شریک ہوا۔ اس سے پاکستان کے لئے وہ مسائل پیدا ہوئے جن سے اب تک چھٹکارا نہیں مل سکا۔ کیا میاں نواز شریف اس تاریخی غلطی سے آگاہ نہیں؟ ہماری مغربی اور مشرقی سرحدیں بھی محفوظ نہیں؛ جبکہ ملک کے اندر بھی ایسے عناصر کی کوئی کمی نہیں جو ملک کو کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں پاکستان کے عوام سعودی عرب کے لئے نیک خواہشات کا اظہار تو کرسکتے ہیں‘ افواج پاکستان دفاعی مشورے بھی دے سکتی ہیں، لیکن یہاںسے بہت دور کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایک بار پھر اپنے آپ کو دانستہ طورپر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ خطے کے اُن ملکوں کو بھی ناراض کرنا چاہتے ہیں، جن سے بظاہر ہماری کوئی عداوت نہیں۔