ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان جناب قائم علی شاہ نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران اخبار نویسوں کو بتایا کہ کراچی میں امن کی بحالی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کی جانے والی پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائیوں میں ہونے والی کامیابیوں کا کریڈٹ پی پی پی کی حکومت کو جاتا ہے۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ انہوںنے ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم نہیں کہا ہے۔ صحافیوں کو اس بات پر حیرت تھی کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد کیا تھا؟ کراچی میں پولیس اور رینجرز کی کارروائیاں فوراً ہی ٹی وی پر آجاتی ہیں، اور یہ تمام خبریں رپورٹرز کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ ہوتی ہیں،یا پھر پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ حکام کے ساتھ رابطوں کے ذریعے یہ خبریں عوام کے سامنے لائی جاتی ہیںاور پی پی پی کی صوبائی حکومت کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ فلاں جگہ کارروائی ہوئی ہے، اور اس کے کیا نتائج نکلے ہیں۔ قائم علی شاہ کی پریس کانفرنس کے اختتام کے بعد ایک سینئر صحافی نے جو اس کانفرنس میں موجود تھے، مجھے تبایا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد صرف یہ تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ خود لیا تھا۔یہ بات پی پی پی کے رہنمائوں کو بہت بری لگی۔ صوبائی وزیر شرجیل میمن نے ،جو ہر وقت کسی نہ کسی حوالے سے ٹی وی پر موجود رہنا چاہتے ہیں ، کہا کہ کراچی میں امن کی بحالی کا سہرا پی پی پی کی صوبائی حکومت کے سرجاتا ہے، (حالانکہ ابھی کراچی میں امن کی بحالی کاتصور بھی کافی دور ہے) ۔انہوں نے بھی وزیراعظم کے جملے کی تردید کرنے کی کوشش کی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت انتہائی نا اہل وزیروں اور مشیروں پر مشتمل ہے۔ کراچی گزشتہ کئی سالوں سے جرائم پیشہ اور ٹارگٹ کلرز کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا، جسے ماضی میں اور نہ اب سندھ کی صوبائی حکومت موثر طورپر روکنے میں کامیاب ہو سکی تھی، بلکہ اس نے کبھی کراچی میں لا ء اینڈآرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیںکیا تھا۔ ان حقائق سے کراچی کے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔ کراچی کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے جہاں اقتصادی سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی تھیں،وہیں سرمایہ بھی باہر جارہا تھا۔ بھتہ خوری کی لعنت کی وجہ سے فیکٹری مالکان فیکٹریوں کو تالا لگانے پر مجبور ہوچکے تھے، اور ہزاروں مزدور بے روز گار ہوگئے تھے۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ نے سنجیدگی سے غور کیا کہ اگر کراچی کے عوام ، صنعت کاروں اور تاجروں کو سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاتو اس غفلت اور عدم توجہی کی بنا پر معاشی سرگرمیوں اور ترقی کا مرکز کراچی ڈوب جائے گا،اور اس کے اثرات پاکستان کے دیگر شہروں پر بھی پڑیں گے، چنانچہ فوجی قیادت نے مرکز کی سیاسی قیادت کو باور کرایا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو پاکستان معاشی طورپر انتہائی کم سطح پر آجائے گا جس کی وجہ سے نہ تو مملکت کا کاروبار چل سکے گا، اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہوسکے گا۔ سیاسی قیادت کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ کراچی کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے پانی سر سے اونچا ہوتاجارہا ہے ، اس لئے گذشتہ سال میاں نواز شریف کراچی آئے اور تمام سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مشاورت کے بعد (جس میں صنعت کار اور تاجر بھی شامل تھے) ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے خطرناک ٹارگٹ کلرز ، لینڈ مافیا کے گروہوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ان میں بعض ایسے بھی عناصر تھے جنہوں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لئے پولیس سے مقابلہ کیا اور مارے گئے۔ بقول قائم علی شاہ اس آپریشن میں اب تک 60فیصد کامیابی حاصل کرسکے ہیں، باقی چالیس فیصد کامیابی بھی جلد حاصل ہوجائے گی، اس لئے اس کامیابی کا سہرا ہمارے سر ہے ،نہ کہ وفاقی حکومت کے ۔
لگتا یہ ہے کہ قائم علی شاہ کو زرداری صاحب نے ایسا کہنے کا مشورہ دیا تھا، جن پر بہت جلد تلوار گرنے کا خدشہ ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کراچی سے متعلق یہ فیصلہ نہ کرتی تو وہ دن زیادہ دور نہیں تھا جب کراچی کی معاشی سرگرمیاں کافی حد تک ماند پڑجاتیں اورجس کے پاکستان پر مجموعی طورپر نہایت ہی منفی اثرات پڑتے ۔قائم علی شاہ یہ کریڈٹ لے کر ایک طرف عوام کی نگاہوں میں پی پی پی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف وفاقی حکومت سے خواہ مخواہ کی ٹکر بھی لی جارہی ہے ۔اگرپی پی پی حکومت کو کراچی کی صورتحال کوسدھارنے میں اتنی ہی دلچسپی تھی تو اسی وقت بڑی جرأت سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تھے ، جب وفاق اور صوبے میں ان کی حکومت تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس دوران کراچی دہشت گردی کی زد میںآگیااور معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا جبکہ پی پی پی کی قیادت نے ادھر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ملک کے قیمتی وسائل کو اپنے لئے ، خاندان کے لیے اور دوستوں کے لیے لوٹتے رہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ وفاق اور سندھ کی بیورو کریسی بھی اس لوٹ کھسوٹ میں شامل ہوگئی، جبکہ کراچی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، عوام امن کے لئے ترستے رہے، بلکہ مارے مارے پھرتے رہے اورسماج دشمن عناصر کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہوں کے جنازے اٹھتے رہے ۔
تاہم اب جبکہ موجودہ سول و ملٹری قیادت نے گزشتہ سال کراچی میں ایک اجلاس میں کراچی کو سماج دشمن عناصر سے پاک کرنے کا تہیہ کرلیا اور اس سلسلے میں پولیس اور رینجرز کی جانب سے بلا امتیاز بھر پور کارروائیاں کی جارہی ہیں،کامیابیاں بھی مل رہی ہیں تو پی پی پی کی صوبائی حکومت کو درد اٹھا اور عوام کو یہ عندیہ دینے کی کوشش کی کہ موجودہ ٹارگٹڈ آپریشن کی کامیابی ان کی ''دوُر رس حکمت عملی‘‘ کا نتیجہ ہے ۔ واہ واہ۔ کیا کہنے ‘سب کچھ لٹا کہ ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ دراصل پی پی پی کو یہ احساس ہوتا جارہا ہے کہ اس بلا امتیاز ہونے والے آپریشن میں ان کی بھی باری آنے والی ہے۔ نیب کے پاس پی پی پی کے علاوہ دیگر پارٹیوں کے ایسے افراد کے نام موجود ہیں جنہوں نے ملک کے قیمتی وسائل لوٹ کر اس ملک کی اقتصادی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے اپنے کسی کالم میںلکھا تھا کہ اگر کسی ملک کو اقتصادی طورپر مفلوج کردیا جائے تو وہ معاشرہ خودبخود تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ بد قسمتی سے بعض سیاسی عناصرنے اپنے غیر ملکی آقائوں کے اشارے پر کراچی اور دیگر علاقوں میں ایسا کرنے کی شعوری کوشش کی تھی، لیکن اب اسٹیبلشمنٹ جاگ گئی ہے۔ دیر آید درست آید ۔کراچی اور سندھ میں قانون کی بالادستی قائم کی جارہی ہے اوراس کامیابی کا کریڈٹ تمام سیاسی پارٹیوں کو جاتا ہے، جبکہ وفاق کو اس ضمن میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لئے یہ سب سے زیادہ تعریف کا مستحق وہی ہے۔