فیلڈ مارشل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان اور روس کے تعلقات انتہائی خوشگوار تھے، یہ بات روسی سفیر نے کراچی یونی ورسٹی میں سوشل سائنسز کے شعبے میں ایک تقریب کے دوران کہی، لیکن امریکہ کے جاسوس طیارے یوٹو کی پاکستان کی سرحد سے پرواز (پشاور میں واقع امریکی اڈے سے) جسے روسی توپوں نے مار گرایا تھا، تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے، اور خروشیف نے پشاور کے اڈے کو تباہ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی، لیکن بعد میں اس وقت کے سوویت یونین اور پاکستان کی جانب سے سفارتی سرگرمیوں کے بعد تعلقات معمول پر آگئے تھے، تاہم یہ پرانی تاریخ ہے جسے دہرانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔ اب دنیا تیزی سے بد لتی جارہی ہے۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے اور اس کی جگہ روسی فیڈریشن کاقیام عمل میں آچکا ہے۔ روس کے موجودہ صدر پیوٹن پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر بناناچاہتے ہیں، جس کا اظہار روسی سفیر مسٹر ڈی ڈوف نے کیا ہے۔ روس کے وزیردفاع اور پاکستان کی سیاسی قیادت ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کر چکے ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ مزید برآں روس کی قیادت نے بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ بھارت اور امریکہ کے درمیان دس سالہ دفاعی معاہدہ جس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ بھارت امریکہ کے حلقہ اثر میں شامل ہوچکاہے، چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر روس جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لارہا ہے اور آہستہ آہستہ پاکستان سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ روسی سفیر نے یہ بھی کہا کہ ''افغانستان میں قیام امن کے ضمن میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے ، روس پاکستان کی ان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘‘۔ روسی سفیر نے کہا کہ پاکستان کا یوکرائن کے مسئلہ پر کردار قابل تعریف ہے۔ پاکستان اس مسئلہ پر غیر جانبدار رہا ۔ روسی سفیر نے کشمیر کے مسئلہ پر دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ مسئلہ نہایت ہی اہم ہے۔ اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ کشمیر کے مسئلہ پر کشمیری عوام کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہئے۔ کشمیر کے مسئلہ پر ہماری پالیسی میں خاصی تبدیلی آچکی ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان تجارت سے متعلق روسی سفیر نے کہا کہ 2013ء میں اس کا حجم 54ملین ڈالر تھا جبکہ اب اس وقت اس میں کمی واقع ہوئی ہے اور اب دو طرفہ تجارت کا حجم 47ملین ڈالر رہ گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں کمی کی وجہ موجودہ علاقائی حالات ہیں، جن میں اب بہتری کے آثار پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان اور روس دونوں کی خواہش ہے کہ نجی شعبہ آگے بڑھ کر تجارتی حجم میں اضافہ کرے۔ روس پاکستان سے کئی اشیاء درآمد کرنا چاہتا ہے، جن میں ٹیکسٹائل کے علاوہ کھیلوں کے سامان بھی شامل ہیں۔ اسٹیل ملز سے متعلق انہوںنے کہا کہ اگر روس کو موقع ملا تو ہم ملز کی پیداوار ی صلاحیت میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔ اس وقت اسٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت 45فیصد سے زیادہ نہیںہے۔ اس اہم صنعتی ادارے کے موجودہ ساز وسامان کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے تب جاکر اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
روسی سفیر کی گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ روس پاکستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس کی خارجہ پالیسی میں گہری تبدیلی وقوع پذیر ہورہی ہے۔ عالمی سطح پر دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے وزیراعظم جلد ہی روس کا دورہ کریں گے جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے مابین باہمی تعلقات میں مزیدبہتری آسکتی ہے۔ پاکستان بھی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر اور بامقصد بنانا چاہتا ہے۔ روسی صدرپیوٹن نے کئی بار یہ کہا ہے کہ پاکستان کا عالمی امن کے حوالے سے اہم رول ہے، جس کی ہم غیر مشروط تائید کرتے ہیں‘ تاہم روسی سفیر نے بڑی وضاحت سے یہ بات کہی کہ بھارت کے ساتھ جو بھی اور جس قسم کے ہمارے تعلقات ہیں، ان پر پاکستان کو تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ روس پاکستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے، جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے روس پاکستان کی حکمت عملی کی تائید کرتا ہے، دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیںہے، یہ اب روس، چین او ر پورے مشرقی وسطیٰ میں پھیلتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ہر مہذب ملک اور انسانیت کو شدید خطرہ لاحق ہے، جسے باہمی اشتراک و اتحاد سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
کراچی یونی ورسٹی کے بعد روسی سفیر نے انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنز میں صحافیوں اور دانشوروں کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے افراد سے خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور روس دونوں باہم مل کر اس خطے میں پائے جانے والے سماجی مسائل کو حل کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں، روس پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کر سکتا ہے، جبکہ روسی ہیلی کاپٹر خریدنے سے متعلق پاکستان اور روس کے درمیان بات چیت چل رہی ہے، چنانچہ پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ روس کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی خصوصیت کے ساتھ جنوبی ایشیا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اورروس کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے اپنے مفادات کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ اقتصادی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ہمیں اس خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان توازن پیدا کرتے ہوئے قیام امن اور دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائیوں میں ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔