گزشتہ دو ہفتوں سے سرینگر اور اس کے قرب و جوار میں بھارتی فوج اور پولیس کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اب تک بھارتی فوج اور پولیس کی پر تشدد کارروائیوں کے نتیجہ میں دو افراد شہید ہوئے ہیں ، جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ایک کشمیری رہنما مسرت عالم نے ایک اجتماع میں پاکستانی پرچم لہرا دیا تھا اور کچھ جوشیلے کشمیری نوجوانوں نے بھارتی پرچم کو نذر آتش بھی کر دیا تھا جس پر بھارتی فوج کے اہل کار اور پولیس طیش میں آگئے اور انہوں نے پرامن اجتماع پر فائرنگ کے ساتھ ساتھ زبردست شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی شروع کردیا۔ پولیس نے مسرت عالم کو فوراً گرفتارکر لیا اور انہیں نا معلوم مقام کی طرف لے گئی۔ ان کی گرفتاری کے خلاف پوری وادی سراپا احتجاج بن چکی ہے۔ مسلم کانفرنس کے مرکزی رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں مسرت عالم کی گرفتاری اور ان پر کئے جانے والے تشدد اور رہائی کے سلسلے میں ایک زبردست ریلی بھی نکالی گئی، جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ریلی میں بھارتی فوج اور پولیس کے جبر کے خلاف زبردست نعرے لگائے گئے۔ اس ریلی میں میر واعظ عمر فاروق نے واشگاف الفاظ میں بھارتی وزیر اعظم کو خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی فوج اور پولیس کی جانب سے بہیمانہ ظلم کو نہ روکا گیا تو وہ مقبوضہ کشمیر میں ایک نئے پاکستان کے قیام کی تحریک شروع کردیں گے۔ میر واعظ کے ان الفاظ نے نریندرمودی سمیت مفتی سعید کی مقبوضہ کشمیر میں حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نریندرمودی کو یہ زعم تھا کہ بی جے پی 25سیٹیں جیتنے کے بعد آہستہ آہستہ پوری وادی میں اپنا اثر ورسوخ بڑھاکر کشمیر کی آزادی کی تحریک کو ختم کردے گی۔ اس پس منظر میں نریندرمودی حکومت نے وادی میں ہندووں کو آباد کرنا شروع کردیا ہے ، تاکہ اس خطے کے Demographic Profileکو تبدیل کیا جاسکے۔ اس حکمت عملی کو مقبوضہ کشمیر کے عوام نے مسترد کردیا ہے، جبکہ ہندو بغیر کسی تحفظ کے وادی میں آباد ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ جو افراد وہا ں آباد ہونے کی غرض گئے تھے، وہ وادی کے عوام کے خوف سے واپس چلے گئے ہیں۔ دراصل مودی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کا واحد حل سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے سے وابستہ ہے، تاکہ کشمیر ی عوام کی رائے معلوم کی جاسکے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ یہاں کے عوام بھارت کے ساتھ ضم ہونا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ۔ تاہم اب چونکہ مقبوضہ کشمیر میں سیاسی حالات بدل چکے ہیں اور عوام اپنے حقوق کے لئے دوبارہ سرگرم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر کشمیری رہنمائوں کو بھارت اورپاکستان کے درمیان اس اہم بین الاقوامی مسئلہ پر ہونے والے مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہیے، کیونکہ کشمیری رہنمائوں کو شامل کئے بغیر اور ان کی آرا معلوم کئے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے آئینی،قانونی اور سیاسی حقوق کی خاطر ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں اور بزرگوں کی قربانیاں دے چکے ہیں، کئی سو مقبوضہ کشمیری خواتین کی عصمتیں لوٹی گئی ہیں اور انہیں بڑی بے دردی سے قتل بھی کیا گیا ہے، خود مفتی سعید نے، ابھی حال ہی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ کشمیری رہنمائوں کو کشمیر کے مستقبل سے متعلق بات چیت میں شامل کئے بغیر اس مسئلہ کا پر امن حل نہیں نکل سکتا۔ مفتی سعید کے یہ
خیالات مودی سرکار پرانتہائی گراں گزرے ہیں۔ مودی کو مفتی سعید کی جانب سے کشمیری رہنمائوں کی حمایت میں دیئے جانے والے اس بیان کی توقع نہیں تھی، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اب تو امریکہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں کو شامل کرنا اشد ضروری ہے۔ ان کشمیری رہنمائوں نے کشمیر کاز کے لئے بے پناہ اور بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اب بھی بھارتی ظلم و جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا رہے گا، کیونکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں پاکستان اس مسئلہ کا ایک اہم فریق ہے جس کے تعاون کے بغیر یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں لیکن ان سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ان جنگوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں اپنے مستقبل کے فیصلہ کرنے سے متعلق بڑی تقویت اور شعور ملا ہے، نیز بھارتی تسلط و جبر کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، جبکہ وادی میں کشمیری
عوام چند دنوں میں ایک نئی تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں جس کا اشارہ میر واعظ عمر فاروق نے ریلی میں اپنے خطاب کے دوران دیا ہے۔ اس کے برعکس نریندر حکومت مقبوضہ کشمیر کا پر امن حل نکالنے کے بجائے وادی میں جبر ،خوف اور تشدد کا راستہ اختیار کررہی ہے، جو پاکستان سمیت عالمی سطح پر شدید مذمت کا باعث بھی بن رہا ہے۔ وادی کے عوام میں بھارتی سرکار کی اس حکمت عملی کے خلاف نیا محاذ بھی بن رہا ہے تاکہ ایک بار پھر اجتماعی جدوجہد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے کچلے ہوئے عوام کے حقوق کو اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں بازیاب کرایا جاسکے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مقبوضہ کشمیر کے عوام پر نئی دہلی کی مختلف حکومتوں کی جانب سے کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کے باوجود کشمیری عوام کا نظریہ آزادی اور جذبہ حریت ہر لمحہ فروزاں سے فروزاں تر ہوتا جارہا ہے، جس کی روشنی کشمیر میں پھیل کر اب عالمی برادری تک بھی پہنچ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بعض مبصرین کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر وادی میں بھارت کی فوج اور پولیس کی جانب سے ظلم و جبر کو نہیں روکا گیاتو ممکن ہے کہ بھارت اور پاکستان کی فوجیںایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہو جائیں۔ بھارت کو ٹھنڈے دل سے اس صورت حال پر غور کرنا چاہیے۔ مذاکرات ہی کشمیر کے مسئلہ کا حل ہیں۔