کراچی کے حلقہ 246 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ انہوں نے 76 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے؛ تاہم مجموعی ٹرن آئوٹ پچاس فیصد سے زائد نہیں تھا۔ خواتین نے اس ضمنی الیکشن میں بھرپور شرکت کی اور اپنی رائے کو بغیر کسی دبائو یا لالچ کے استعمال کیا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسمٰعیل نے 22 ہزار اور جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم نے 9 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ اس حلقے میں ہونے والے الیکشن میں اگرچہ کل تیرہ سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا‘ لیکن زیادہ تر غیر معروف ہونے کی وجہ سے ابھر کر سامنے نہ آ سکیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اصل مقابلہ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان تھا۔ 23 اپریل کی صبح جب ووٹرز اپنے پسندیدہ امیدواروںکے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے آئے تو یہ احساس جاگزیں ہونا شروع ہوا کہ اس حلقے سے ایک بار پھر ایم کیو ایم معرکہ سر کر لے گی۔ اس سے قبل ایم کیو ایم اس حلقے سے سات مرتبہ انتخابات جیت چکی ہے۔ اس حلقے سے ایم کیو ایم کی آٹھویں فتح نے یہ ثابت کر دیا کہ شہری سندھ کے حلقوں میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک برقرار ہے۔ مارچ سے لے کر اب تک کئی جماعتوں کے خلاف رینجرز اور پولیس کی جانب سے جو آپریشن کیا گیا اس کا اثر اتنا ضرور ہوا کہ کراچی بلکہ پورے سندھ میں سماج دشمن عناصر کا زور ٹوٹ رہا ہے‘ خصوصیت کے ساتھ کراچی میں خوف کی فضا کا خاتمہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کی وجہ سے ایم کیو ایم کی ساکھ میں کمی واقع ہوئی ہے‘ خصوصیت کے ساتھ ان سابق کارکنوں کے بیانات کی وجہ سے‘ جنہوں نے انتہائی انسانیت سوز کام کئے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی‘ دونوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایم کیو ایم کے قائد پر سخت تنقید کی۔ ان جماعتوں کے رہنمائوں کا خیال تھا کہ اس طرح وہ ووٹروں کو اپنا ہم خیال بنا لیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا‘ بلکہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی جانب سے ایم کیو ایم کے رہنمائوں پر کی جانے والی تنقید کا الٹا اثر ہوا‘ یعنی اس حلقے کے عوام نے ردّعمل کے طور پر اپنا ووٹ ایم کیو ایم کے حق میں استعمال کیا۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو انتخابی مہم کے دوران ایم کیو ایم پر بے جا تنقید کے بجائے اپنا اپنا منشور پیش کرنا چاہئے تھا، کیونکہ اس حلقے میں عوام کو بے پناہ مسائل درپیش ہیں‘ جس کا اظہار انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید سے بھی کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہارنے والی دونوں جماعتوں کو اس حلقے کے عوام میں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کی انہوں نے امید باندھ رکھی تھی۔ بعض اہل قلم کا یہ خیال تھا کہ اگر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی باہم مل کر اس حلقے سے ایم کیو ایم کے خلاف انتخاب لڑتیں تو نتیجہ زیادہ بہتر ہوتا، لیکن اب جو نتائج سامنے آئے ہیں‘ اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اس حلقے میں انتخاب میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں مل کر ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتیں‘ تب بھی وہ جیت نہیں سکتی تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بھر کے تجزیہ کاروں نے حلقہ 246 میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے جیتنے کی پیش گوئی کی تھی‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اس مرتبہ ایم کیو ایم کو لاکھوں کی تعداد میں ووٹ نہیں پڑیں گے‘ کیونکہ رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کی وجہ سے بوگس ووٹوں کا پڑنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا‘ یہی وجہ ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے اس انتخاب کو شفاف قرار دیا ہے۔
بہرحال ایم کیو ایم 246 کا انتخاب جیت چکی ہے، ہارنے والی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے قائد کو مبارک باد بھی دی ہے‘ لیکن میرے خیال میں ایم کیو ایم کو اس فتح کے بعد اپنی جماعت کا احتساب ضرور کرنا چاہئے، کیونکہ بقول جناب الطاف حسین‘ ایم کیو ایم میں ''غلط عناصر‘‘ گھس آئے ہیں جبکہ رابطہ کمیٹی کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک قائد نے اس کمیٹی کوکئی بار معطل بھی کیا تھا۔ اس سلسلے میں جناب الطاف حسین صاحب کو ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے‘ جو میڈیا کی تیز و تند روشنی کے بجائے خلوت میں بیٹھ کر اپنی گزشتہ 30 سال کی سیاسی کارکردگی کا جائزہ لے تاکہ جہاں جہاں اس جماعت سے غلطیاں یا کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں‘ ان کا ازالہ کرتے ہوئے شہری سندھ کے ساتھ ساتھ دیہی سندھ کے عوام کے معاشی و سماجی مسائل حل کرنے کے لئے جدوجہد شروع کی جا سکے۔ کراچی میں گزشتہ پندرہ برسوں میں کسی قسم کے ترقیاتی کام نہیں ہوئے‘ ماسوائے چند فلائی اوورز‘ انڈر پاسز اور کچھ سڑکوں کے‘ جس کا سہرا مصطفی کمال کے سر جاتا ہے۔ کراچی میں ابھی تک ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے، نہ ہی سرکلر ریلوے کو بحال کیا جا سکا ہے،
حالانکہ جاپان کی حکومت اس ضمن میں مالی اور فنی تعاون کرنے کو تیار تھی۔ ملائشیا کی حکومت نے بھی اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کی تھیں، بلکہ اس حوالے سے خاصا کام بھی ہو چکا تھا۔ اسی طرح پانی اور بجلی کا مسئلہ کراچی کے عوام کے لئے مستقل عذاب بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھی ابھی تک کسی جانب سے دائمی بنیادوں پر کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ کراچی میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں یا جن پر عمل ہو رہا ہے، ان کی رفتار نہایت سست ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا بُرا حال ہے۔ نجی تعلیمی ادارے زائد فیس وصول کر کے کراچی کے غریب والدین کا استحصال کر رہے ہیں، انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ پبلک سیکٹر میں چلنے والے اسپتالوں پر مریضوں کا بہت زیادہ دبائو ہے کیونکہ ان کی ضروریات پوری کرنے میں یہ طبی ادارے ناکام نظر آ رہے ہیں۔ چونکہ ایم کیو ایم کراچی کو اون کرتی ہے‘ اس لئے اس شہر کا سماجی و معاشی ماحول ٹھیک کرنے اور اس کا حسن اور انسان دوستی کی روایات کو زندہ کرنا اس سیاسی جماعت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کراچی کا عام شہری اس جماعت سے یہی امید رکھتا ہے کہ 'جیو اور جینے دو‘ کے زریں اصولوں کے تحت گلشن کا کاروبار چلتا رہے تاکہ ترقی کے ثمرات بلاامتیاز سب کو ملتے رہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات!