دوغلی پالیسی

گزشتہ روز کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے نتائج کے موقع پر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی واپسی کو نشانہ بنایا اور کہا کہ جس اسمبلی کو یہ جعلی کہتے تھے‘ اسی میں بیٹھے ہیں۔ دو تین ہفتے قبل اسی جماعت کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی قومی اسمبلی میں واپسی پر جو ''تاریخی اور شائستہ کلمات‘‘ ادا کئے تھے ‘ وہ کسی کو نہیں بھولے اور ان سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات میں ایک مرتبہ پھر شدت آ گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن ایسا ماحول برقرار رکھنا چاہتی ہے جس سے باہمی رنجشیں بڑھیں۔ یہ نہ صرف ان قائدین کے لئے نیک شگون نہیں ہے بلکہ ملک کے لئے بھی خوش کن نہیں۔ کیونکہ جب سیاسی پارٹیاں ایسے معاملات میں دست و گریباں رہیں گی تو پھر اہم ملکی داخلی اور خارجی معاملات کیسے بہتر انداز میں حل ہو پائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو تو آپس میں ایک ہونا ہو گا تاکہ یہ مل کر ملک کو درپیش مسائل کا مقابلہ کر سکیں۔ اس حکومتی رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن پُرامن طریقے سے حکومت کے معاملات چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ خواجہ صاحب نے تحریک انصاف کے رہنمائوں سے متعلق جو کچھ بھی کہا تھا اس سے یہ نتیجہ بہ آسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنی اعلیٰ قیادت کی ''ہدایت‘‘ پر کیا تھا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کو تحریک انصاف کے قائدین کی مذمت کرنے کا حوصلہ بھی وزیراعظم ہائوس سے ملاتھا ۔ رہا سوال ایم کیو ایم کا تو تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان عرصۂ دراز سے کشیدگی اور ناراضگی چلی آرہی ہے ۔ایسے مواقع پر بہر حال ہر کوئی حساب برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اگرچہ بہت زیادہ حیرت انگیز بات نہیں لیکن ملک کے حالات کو دیکھنا بھی سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے فرائض سے یا تو خود کو سبکدوش سمجھ چکی ہے یا پھر اسے اپنے فرائض کا ادراک ہی نہیں۔ اس کی مثال قومی اسمبلی کا وہ مشترکہ اجلاس تھا جو یمن کی صورتحال پر جامع بحث کے سلسلے میں بلایا گیا تھا لیکن حکومتی وزیر نے اسے انتہائی غیر سنجیدہ رخ دے دیا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران نازک معاملات کو نبھانے کی کس قدر صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر معاملے کو یمن کی صورتحال تک محدود رکھا جاتاتو ایوان میں وہ تلخی اور بدمزگی دیکھنے میں نہیں آتی جو دیکھی گئی ۔اپوزیشن اور حکومت میں ایسی تلخیاں چلتی رہتی ہیں۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوتا‘ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں؛ تاہم ہمارے ہاں یہ مناظر اس قدر تواتر کے ساتھ دیکھے گئے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ یہ ہماری سیاست کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ایسی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے خاصے مایوس نظر آتے ہیں اور حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن میں آزاد امیدواروں کی کثیر تعداد میں کامیابی اسی امر کی غماز ہے۔ صد شکر کہ اس ملک میں پاک فوج کا ادارہ موجود ہے جس نے توازن کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ جن دنوں تحریک انصاف کا دھرنا چل رہا تھا‘ تب بھی آرمی نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ان دنوں کچھ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ تحریک انصاف اور طاہر القادری کے دھرنوں کے دوران حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہو سکتا تھا لیکن جنرل راحیل شریف نے ایسا نہیں ہونے دیابلکہ انہوںنے اس جمہوریت کو ‘ جو چاہے کمزور ہے‘چلنے دیا۔ 
حکومتی وزرا اور ارکان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس وقت ملک ایک اور نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ افغانستان میں داعش ایک بڑا دھماکہ کر چکی ہے۔ مشرقی سرحد پر بھارتی چھیڑ چھاڑ بھی جاری ہے۔ اندرونی طور پر معیشت انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ایسے میں اگر سیاستدان بالخصوص حکمران ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کریں گے تو اس سے دشمن کو ان کے خلاف مضبوط ہونے کا موقع ملے گا اور عوام میں بھی اپنے ہی سیاستدانوں کے خلاف نفرت بڑھے گی۔ آئے روز حکومتی وزرا کی طرف سے تحریک انصاف کے قائدین کو برا بھلا کہنا اس بات کی 
غمازی کررہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) دھرنوں کے دوران تحریک انصاف کی طرف سے کئے گئے تابڑ توڑ حملوں کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے حکومت کیوں بھول رہی ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) کے ممتاز رہنما جناب اسحاق ڈار نے متعدد بار عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اسمبلی میںآجائیں ، کیونکہ ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے ہیں۔ جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کے قائدین سے یہی درخواست کی تھی ، بلکہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد جناب خورشید شاہ نے تو حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی ختم کرانے اور اپنے خدمات پیش کرنے کی بھی بات کی تھی۔ مزیدبرآں جوڈیشل کمیشن کے قیام سے متعلق مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین ہونے والے سمجھوتے سے یہی تاثر پیدا ہوا تھا کہ اب تحریک انصاف اسمبلی میں جائے گی اور حزب اختلاف کا موثر کردار ادا کرے گی۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی میڈیا سے اپنی بات چیت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب چونکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے قیام کا فیصلہ ہوچکا ہے ، اس لئے ہم اسمبلیوں میں جاکر اہم قومی اور بین الاقوامی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کریں 
گے۔ عمران خان یمن کی صورتحال کے حوالے سے اجلاس میں آئے لیکن حکومت نے اس مثبت قدم کو بھی خوش آمدید نہ کہا۔ 
دراصل یہ پاکستان کے عوام کی بد نصیبی ہے کہ ناخواندہ اور ناسمجھ افراد کے ووٹوں اور دھاندلی کے ذریعہ ایسے افراد اقتدار میں آجاتے ہیں جن میں عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ وہ پاکستان کے نام پر تجارت کرتے اور کک بیک کے ذریعہ اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کا کمزور پودا درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جاتا ہے، جو بعد میں افراتفری کا باعث بنتا ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت ہے اور اس جماعت نے ماضی میں بھی اور اب بھی حکمران طبقے کی لوٹ کھسوٹ اور بد عنوانیوں کو نہ صرف بے نقاب کیا ہے بلکہ ان سب کا بے رحمانہ احتساب کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تحریک انصاف کے اس رول کو معاشرے کے باشعور طبقوں نے بہت سراہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھا لکھا نوجوان طبقہ تحریک انصاف کی طرف دیکھ رہا ہے، اور با معنی اور بامراد تبدیلی کا بھی خواہش مند ہے، چنانچہ حکمران تحریک انصاف یا پھر کسی دوسری پارٹی کو عوام کی نگاہوں میں بے توقیر کرنے سے گریزکریں اور اپنی تمام تر توجہ بجلی، گیس اور پٹرول کی مستقل بنیادوں پر فراہمی کی طرف دے کر پاکستان کو معاشی طورپر مستحکم بنانے کی سنجیدہ اور پر زور کوششیں کریں۔یہ سب کچھ سیاست دانوں کے درمیان مفاہمانہ رویوں سے پیدا ہوسکتا ہے، ورنہ اس ملک میں جمہوریت کو ایک مرتبہ پھر خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں