ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت

چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت نے مغربی ممالک کو خاصا پریشان کررکھا ہے‘ خصوصیت کے ساتھ امریکہ بہادرکو، ان کا بس نہیں چل رہا ہے کہ کسی طرح اس کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کو روکنے کی کوشش کی جائے، لیکن چین ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس وقت اس کا تجارتی سرپلس 4ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اتناضخیم ٹریڈ سرپلس دنیا میں کسی ملک کے پاس موجود نہیں ہے؛ چنانچہ چین نے اپنی معاشی قوت کو مزید استحکام بخشنے کی خاطر AIIBیعنی Asian Infrastructure and Investment Bank کا قیام عمل میں لارہا ہے، اس بینک کے قیام کا اعلان 2014ء میں چین کے وزیراعظم لی نے بائو فورم میں کیا تھا، اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایشیائی ملکوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے سرمایہ اس بینک سے آسان شرائط پر حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کے برعکس ایشین ڈیویلپمنٹ بینک ایک عرصہ دراز میں ایشیائی ممالک کی معاشی ضروریات کو پوری کررہا ہے، لیکن بسا اوقات ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی جانب سے دیئے جانے والے قرضوں میں سیاسی اثرات بھی نظر آتے ہیں‘ مزیدبرآں ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک ستر سال پرانے ہوگئے ہیں ، ان سے متعلق تیسری دنیا کے غریب ممالک اچھی رائے نہیں رکھتے ہیں ، لیکن کیونکہ قرضہ لینے کے سلسلے میں دیگر مالی ادارے موجود نہیںہیں، اس لئے بہ حالت مجبوری یہ تمام ممالک ان ہی دو بڑے قدیم مالی اداروں سے رجوع کرتے ہیں، بلکہ بھاری سود کے ساتھ کڑی شرائط بھی ہوتی ہیں لیکن AIIBبینک کے قیام سے ایشیا کے ترقی پذیر ممالک کو آسان شرائط پر قرضہ مل سکے گا، اب انہیں ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا، جو ایک عرصۂ دراز سے ان ممالک کی معیشت کو اپنے اثرات میں رکھے ہوئے ہیں، جبکہ ان کی شرح نمو بھی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، اس طرح AIIBایشیائی ممالک کے لئے قرضوں کے حصول کے سلسلے میں ایک متبادل مگر قابل بھروسہ ادارہ ہوگا، جس کے کے ساتھ کسی قسم کی ''سیاسی ڈور‘‘ منسلک نہیں ہوگی، اس وقت اس کا مجموعی سرمایہ 100بلین ڈالر کے قریب ہوگا، یہ بینک مقامی کرنسیوں میں بھی قرضہ دے کر ایشیائی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد دے گا۔
چین نے یہ بینک کیوں قائم کیا ہے؟ اس کے پیچھے اس کے کیا اغراض و مقاصد ہیں؟ دراصل چین اپنے ٹریڈ سرپلس کو با مقصد طورپر استعمال کرنے کے علاوہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں اپنا سیاسی اثرورسوخ بھی بڑھانا چاہتا ہے۔ چین کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ ایشیائی ممالک مغرب کے مالی اداروں کے طریقہ کار سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انہیں ان اداروں سے ان کی ضروریات کے مطابق رقم نہیں ملتی، لیکن جب ملتی ہے تو ترقیاتی کاموں کی مد میں خرچ ہونے والی رقوم میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے چین نے ان ممالک کی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور خود اپنی مالی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بینک کو قائم کیا ہے، جس کی وجہ سے ایشیائی ممالک کو اب اپنے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں رقوم کے حصول میں زیادہ مشکلات درپیش نہیں آئیں گی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی اس بینک کے ممبر بننا چاہتے تھے، لیکن امریکہ کے دبائو کی وجہ سے انہوں نے اس کا ممبر بننے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان میں چین 46بلین کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ یہ سرمایہ کاری اسی بینک کے ذریعہ ہوگی، کیونکہ چین کو اس بات کا
ادراک ہے کہ اگر اتنی بڑی اور بھاری رقوم پاکستانی بینکوں کے ذریعہ ادا کی گئیں تو اس میں کرپشن کے خاصے بڑے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں، اس لئے چین خود اپنی نگرانی میں پاکستان ، چین اقتصادی راہداری کی نگرانی کرے گا، اس طرح کام بھی جلدی ہوجائے گا، اور کرپشن کے امکانات بھی نہیں پیدا ہوسکیں گے۔ اسی طرح برازیل ،روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ، نے باہم مل کر جون 2009ء میں برکس بینک قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ بینک ورلڈ بینک کے مقابلے میں لاطینی اور افریقی ممالک کو ان کی مالی ضروریات کے تحت قرضہ فراہم کرے گا۔ اس بینک کا قیام 2014ء میں عمل میں آیا ہے۔ ابتدا میں برکس اور اے آئی آئی بی دونوںڈالر کرنسی لین دین کریں گے جو اس وقت بھی دنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے اور جس پر دنیا کے بیشتر ممالک کو اعتماد ہے ، تاہم یہ سوال اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ چین یہ مالی ادارے کیوں بنارہا ہے؟ چین جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ اپنی مالی اور معاشی قوت کو پھیلانا چاہتا ہے، تاکہ جہاں اس حکمت عملی سے اپنے مالی اور سیاسی اثرات
میں اضافہ کیا جاسکے‘ وہیں وقت پڑنے پر ان ممالک کواپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہمنوابنایا جاسکے۔ اس ضمن میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ آئندہ برسوں میں چین صرف اپنی معاشی قوت پر ہی بھروسہ نہیں کرے گا بلکہ اس کا ایک سیاسی رول بھی ہوگا، لیکن فی الوقت وہ سیاسی رول کو محض اس لیے موخر کئے ہوئے ہے کہ اس میں کچھ پیچیدگیاں آسکتی ہیں، جبکہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی ملکوں میں سرمایہ کاری کرکے چین اپنی مالی ساکھ کے علاوہ آہستہ آہستہ سیاسی ساکھ بھی قائم کررہا ہے۔ امریکہ کو چین کی جانب سے قائم ہونے والے مالی اداروں نے اضطراب میں مبتلا کردیا ہے اور کسی حد تک امریکہ کی یہ سوچ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ان ممالک میں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ متاثر ہوگا، جس کو امریکہ بہادر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اس لئے اس کی کوشش ہوگی کہ ان مالی اداروں میں ممبر شپ محدود رہے اور اس کے ساتھ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کو زیادہ موثر بناتے ہوئے ان کے سرمائے میں اضافہ بھی کیا جاسکے تاکہ ان ممالک کو زیادہ سے زیادہ قرضہ مل سکے اور ان کا اعتماد بھی بحال ہوسکے۔ بعض ماہرین معیشت کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ ایشین بینک اور ورلڈ بینک اب زیادہ مستعدی سے کام کریں گے اور سیاسی بنیادوں پر قرضہ دینے سے اجتناب برتیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں