گذشتہ ہفتے قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں اور افغان حکومت کے درمیان باضابطہ مذاکرات شروع ہوئے۔ ابتدائی خبروں کے مطابق یہ مذاکرات آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں، دونوں فریق تا حال بات چیت سے مطمئن و مسرور نظر آرہے ہیں، اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح خوشگوار ماحول میں بات چیت کے ذریعہ اس پیچیدہ مگر انتہائی طویل خانہ جنگی کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔ اس خانہ جنگی میں‘ جس میں کسی زمانے میں روس اور اب امریکہ شامل ہے، لاکھوں افراد کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جبکہ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ اب امریکہ سمیت پاکستان اور چین کی یہ خواہش بلکہ کوشش ہے کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوجائے تاکہ افغانستان کے معصوم اور مظلوم عوام مزید غیر ضروری ہلاکتوں سے بچ سکیں۔
کراچی میں افغان طالبان کے ایک نمائندے سے اس مسئلہ پر میری بات چیت ہوئی۔ اس نے اپنا نام بتانے سے انکار کردیا تھا، اور جب مجھے اس نے اپنا نام بتایا تو وہ صحیح نہیں تھا۔ وہ مجھ سے بات چیت کرتے ہوئے ہچکچارہا تھا، بلکہ خوف زدہ بھی تھا۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کراچی میں اس وقت ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے‘ جس میں سماج دشمن اور پاکستان دشمن عناصر کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ سو میں نے اسے اطمینان دلایا کہ میں مخبر نہیں‘ ایک صحافی ہوں‘ جس کو افغانستان کے سیاسی و سماجی معاملات سے بے حد دلچسپی ہے۔ مزید تسلی دیتے ہوئے میں نے اسے روزنامہ ''دنیا‘‘ میں افغانستان سے متعلق شائع ہونے والے کالم دکھائے۔ وہ اردو زبان کوفارسی کے حوالے سے جانتا تھا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا تو اس نے جو کچھ بتایا اس کا خلاصہ یہ ہے: ''افغانستان کے عوام کی اکثریت خانہ جنگی سے تنگ آچکی ہے۔ اس وقت افغانستان میں ہر سو افراتفری پائی جاتی ہے جس کا ازالہ کرنے میں اشرف غنی کی حکومت ناکام نظر آرہی ہے، لیکن ہماری اشرف غنی سے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں۔ وہ کرزئی کے مقابلے میں بہت زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے علاوہ اس خطے کے معاملات میں گہری سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ کرزئی ایک انتہائی کرپٹ اور ظالم آدمی ہے، اس نے امریکیوں کے مدد سے افغانستان میں ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت خانہ جنگی کو مزید پھیلایا تھا، جس میں خود اس کا ایک بھائی بھی قتل ہوا تھا، دوسری طرف اشرف غنی نے افغانستان میں خانہ جنگی کو روکنے کے سلسلے میں پاکستان، چین ، سعودی عرب اور سب سے آخر میں اب بھارت کا دورہ کیا ہے اور ان تمام ممالک سے انہوںنے افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں مدد اور تعاون کی درخواست کی ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان ممالک سے مالی امداد بھی چاہتے ہیں، جو فی الوقت انہیں کم مقدار میں امریکہ، چین اور پاکستان سے مل رہی ہے۔ بھارت نے ڈاکٹر اشرف غنی سے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان کو مزید مالی امداد فراہم کی جائے گی، لیکن سارا مسئلہ افغانستان میں امن کا قیام ہے جس میں پاکستان، چین اور امریکہ براہ راست کلیدی کردار ادا کررہے ہیں، ہمیں اس کا احساس ہے کہ پاکستان نے خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے افغان عوام کی بے تحاشہ مدد کی ہے، اس وقت بھی پندرہ لاکھ سے زائد افغان عوام پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی اکثریت پُر امن زندگی بسر کررہی ہے۔ اگر آئندہ چند ماہ میں قطر میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجہ میں خانہ جنگی ختم ہوجاتی ہے تو پاکستان میں مقیم افغان عوام بہت خوشی کے ساتھ واپس اپنے گھروں کی طرف منتقل ہوجائیں گے‘‘۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے رکا، پھر چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس نے کہا: ''ہم مسجدوں میں دعائیں کررہے ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوجائیں اور ہم واپس اپنے وطن چلے جائیں‘ جس کی خوشبو ہمارے رگ و پے میں اب بھی موجود ہے‘‘۔ اس بات چیت کے دوران فرخندہ کابھی ذکر ہوا جس کو کابل میں ایک ماہ قبل ایک درگاہ کے قریب سنگ سار کیا گیا تھا۔ سنگ سار کرنے والوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کے علاوہ کٹھ ملائوں کی ایک ٹولی بھی تھی جنہوں نے اس وحشیانہ فعل میں حصہ لیا تھا، حالانکہ بعض مستندخبروں کے مطابق فرخندہ نے یہ کہا تھا کہ درگاہ کے بعض منتظمین مذہب کو اپنے مالی فوائد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس پر ملا لوگ ناراض ہوگئے اور اس پر الزام لگایا کہ اس نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔ بعد میں اس کو جس بے دردی او ر بے رحمی سے مارا گیا‘ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فرخندہ سے متعلق میرے سوا ل پر وہ رنجیدہ ہوگیا، اور کہنے لگا: ''پوری دنیا میں اس واقعہ سے افغانستان کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بد نام ہورہے ہیں، کاش ایسا نہ ہوتا‘‘۔ اس نے چائے کا آخری گھونٹ بھر کے مجھ سے اجازت چاہی اور کہا: ''آپ دعا کریں کہ قطر مذاکرات کامیاب ہوجائیں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے ، کیونکہ افغان عوام نے اپنے ناکردہ گناہوں کی بڑی بھاری سزا بھگتی ہے، اب ان میں مزید حوصلہ نہیں ہے‘‘۔
طالبان نمائندے سے بات چیت کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اشرف غنی کی حکومت کے دوران افغانستان میں امن قائم نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوسکے گا۔ اس صورت میں غریب افغان عوام امن کے لئے ترستے رہیں گے۔ قطر میں امن مذاکرات پاکستان کی کوششوں سے ہی ہورہے ہیں، کیونکہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت افغان حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی و معاشی روابط مسلسل بڑھا رہی ہے اور انہیں اپنی حمایت کا یقین بھی دلا رہی ہے۔ بعض عناصر اب بھی امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جن میں حامد کرزئی پیش پیش ہیں جیسا کہ انہوں نے پہلے کیا تھا۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں اشرف غنی کے ساتھ دورے میں انہوں نے بھارت کے سکیورٹی امور سے متعلق سربراہ کو مشورہ دیا کہ بھارتی حکومت اشرف غنی پر افغان پاکستان راہداری کھولنے پر دبائو ڈالے تاکہ بھارت کا ہر قسم کا سازوسامان اس راستے سے افغانستان اور بعد میں وسطی ایشیا کے ممالک میں جاسکے۔ جب ڈاکٹر اشرف غنی کا دورہ بھارت ختم ہوا تو انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران حکومت پاکستان سے استدعا کی کہ پاک افغان تجارتی راہداری کھول دی جائے تاکہ افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت بڑھ سکے اور افغان اکانومی مستحکم ہوسکے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو ایسا کرنا چاہئے، (جیسا کہ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا) کیونکہ بھارت ایک نا قابل اعتبار پڑوسی ہے جو ہمہ وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے پر تلا رہتا ہے۔ جب سے نریندرمودی نے اقتدار سنبھالا ہے اس نے پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بلاوجہ اور بغیر کسی اشتعال کے فوجی یلغار کررکھی ہے۔ مودی افغانستان میں بیٹھ کر ہماری مغربی سرحدوں کے لئے پریشان کن حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کا یہ کردار نہ صرف پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے، بلکہ اس خطے کے لئے بھی۔ اگر بھارت پاک افغان راہداری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے بلوچستان میں پاکستان کے خلاف اپنی سرگرمیوں کو منقطع کرنے کے علاوہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ پاکستان میں ہر قسم کی مداخلت کو روکنے کا عہد کرے، تبھی افغان پاکستان راہداری بھارت کے لئے کھل سکتی ہے۔ رہا سوال قطر میں افغان طالبان کے ساتھ افغان حکومت اور مختلف گروپوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا ، تو اس سے جلد کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے‘ لیکن اب قطر میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہوچکا ہے، اس لئے مذاکرات تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جاری رہیں گے۔ یہ افغان حکومت‘ افغان طالبان اور افغانستان میں دیگر سیاسی گروپوں کے لئے قیام امن کے سلسلے میں آخری موقع ہے‘ اس کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔