کنٹونمنٹ بورڈ کے عام انتخابات میں بھی پی پی پی بری طرح شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ جب بھی عام انتخابات ہوں گے یا پھر اس سے قبل بلدیاتی انتخابات ہوں گے، پی پی پی مشکل سے چند سیٹیں جیت سکے گی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ناکامی (ماسوائے سندھ) اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ پی پی پی کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں۔ بے نظیربھٹو ایک ذہین اور کرشماتی رہنما تھیں، لیکن انہیں حاسدو ںنے قتل کرکے پاکستان کو ایک عظیم رہنما سے محروم کردیا۔ بے نظیر کے قتل کے بعد قیادت جناب آصف علی زرداری کے پاس آئی جو کسی بھی عنوان سے اس کے اہل نہیں تھے۔ مزید برآں ان کے ماضی کے بارے میں بھی بہت سے سوالات موجود تھے‘ اس کے باوجود وہ پاکستان کے صدر بن گئے جس پر اس وقت بھی اور آج بھی عوام وخواص کو بڑی حیرت ہے۔ جب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو ان کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ اپنی جماعت کے تعاون اور اشتراک سے ملک میں ایک اچھی، شفاف اور کرپشن سے پاک طرز حکمرانی کی بنیاد ڈالتے ، دوسرا راستہ یہ کہ ملک کے ماضی کی طرح مالی کرپشن کو جاری وساری رکھتے اور اس طرح دنیا کے امیر ترین آدمی بننے کا خواب پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے اپنے بعض موقع پرست اور چاپلوسی کرنے والے دوستوں کے مشورے سے دوسرا راستہ اختیار کیا جس کی کہی اور ان کہی داستانیں اخبارات اور ٹی وی کی زینت بنتی رہی ہیں۔ 2008ء تا 2013ء پی پی پی کی حکومت میں مبینہ طورپر دوسرے بہت سے لوگ بھی کھلے بندوں کرپشن کررہے تھے، جن کو لگام ڈالنے والا کوئی نہیں تھا۔ مالی کرپشن اور اس کے ساتھ لاقانونیت کا عفریت شہروں اور دیہات کے باسیوں کو بری طرح نگل رہا تھا۔ ان دنوں کراچی میں ہرروز دس پندرہ افراد کسی نہ کسی بنا پر قتل ہو اکرتے تھے۔ قتل ہونے والوں میں مذہبی سکالر، سیاسی کارکن اورپولیس والے بھی شامل تھے۔ اس صورتحال کے سبب عوام میں جہاں حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے گہری مایوسی پھیل چکی تھی۔ پی پی پی کا ایک عام کارکن بھی صورتحال سے بد دل تھا اور گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کے اندر موقعہ پرست عناصر عام لوگوں سے لاکھوں روپے لے کر نوکریاں فروخت کررہے تھے۔ اس طرح کی گورننس کی وجہ سے پی پی پی کا مجموعی امیج پاکستان کے اندر اور باہر بری طرح مسخ ہوا تھا، جس کو مزید مسخ کرنے میں ان کے مخالفین نے اپنا پورا پورا حصہ ڈالا، تاہم پی پی پی کی حکومت کے خلاف تما م تر تنقید کے باوجود اس میں اصلاح لانے کی کوئی قابل تعریف کوشش نہ کی گئی۔
آج پی پی پی جس طرح سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے اس سے آئندہ کے لئے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ اس جماعت کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ محض پارٹی کے شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگنا اب زیادہ موثر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ عوام اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ انہیں جذباتی طورپر بلیک میل کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کے وزراء بھی پرانی روش پر چلتے ہوئے مبینہ طورپر لوٹ مار میں ملوث پائے جارہے ہیں، دوسری طرف عوام کی مشکلات اور مسائل کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ صوبہ کرپشن کے لحاظ سے پاکستان کے تمام صوبوں سے بازی لے گیا ہے۔ کرپشن اور ناقص کارکردگی کے اثرات مجموعی طورپر پارٹی پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ کارکنوں کے لئے حکومت کی کارکردگی کا وفاع کرنا مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے اور نظریاتی کارکن سب نے گوشہ نشینی اور خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اس کا مظاہرہ لیاری میں گذشتہ دنوں پی پی پی کے جلسے میں دیکھنے میں آیا جہاں لیاری کے عوام کم تھے اور کراچی اور سندھ کے دیگر اضلاع کے کارکن زیادہ۔ ہر صوبائی وزیر کو یہ تاکید تھی کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جلسہ گاہ میںلاکر پی پی پی کی ''طاقت‘‘ کامظاہرہ کریں، لیکن یہ مظاہرہ نہ ہوسکا۔ لیاری کے ناراض کارکن ناراض رہے، اور باقی اندرون سندھ سے آنے والے بریانی کھا کر کراچی کی سیر کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ لیاری کے جلسے میں‘ جہاں راقم بھی موجود تھا، عوام کے اداس اور افلاس زدہ چہروں کو دیکھ کر یہ احساس ہونے لگا تھا کہ پی پی پی نے لیاری کے عوام کے لئے بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ یہ وہ جگہ ہے جس کو پی پی پی اپنا گڑھ سمجھتی ہے لیکن یہ گڑھ آہستہ آہستہ غربت اورناداری کے گڑھے میں گرتاجارہا ہے، اور عوام اپنی مجبوریوں اور محرومیوں کا اظہار بھٹو مرحوم اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کو یاد کرکے‘ ٹھنڈی آہیں بھر کے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش وہ دوبارہ زندہ ہوجائیں اور ہمارے دکھوں کا مداوا کریں۔ دراصل اب پی پی پی کے پاس کوئی رہنما نہیں ہے، آصف زرداری صاحب میں نہ تو وہ کشش ہے اورنہ ہی ان کے پاس کوئی انقلابی سیاسی منشور ، وہ اپنے مخالفین کو بُرا بھلا تو کہہ سکتے ہیں، لیکن اپنی اصلاح کے لئے نہ تو پہلے تیار تھے اور نہ اب؛ تاہم ان کے بچوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور پارٹی کی تشکیل نو کی طرف سے مسلسل غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے پی پی پی آہستہ آہستہ ایک صوبائی پارٹی بنتی جارہی ہے جو اپنی جگہ ایک انتہائی افسوسناک بات ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج سے اگر پی پی پی کی قیادت کوئی نتیجہ اخذ کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ ہے کہ نظریاتی اور معروضی حالات کے پیش نظر پارٹی کی تشکیل نوکی جانی چاہئے جس میں دانشوروں سے بھی رائے لے کر اس کو دوبارہ ایک انقلابی پارٹی میں تبدیل کیا جاسکے، ورنہ اس کی جگہ کوئی دوسری پارٹی لے لے گی۔