اس وقت پاکستان کی افواج پر غیر معمولی بوجھ آ پڑا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی ہے جس نے پاکستان کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دہشت گردی کرنے والوں میں تحریک طالبان پاکستان‘ بلوچستان کے بعض علاقوں میں علیحدگی پسند اور کراچی میں موجود غیر سیاسی عناصر شامل ہیں‘ جو بیرونی امداد اور تعاون کے ذریعہ اس شہر کے باسیوں کو خون میں نہلا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی مذموم کارروائیاں کررہے ہیں۔ سیاست دانوں کی اکثریت کا‘ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے سلسلے میں رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ عناصر بظاہر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فوج کی تعریف وتوصیف کرتے نہیں تھکتے، لیکن عملی طورپر انہیں اس با ت سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کہ اس کے آئندہ نتائج کیا نکلیں گے اور فوج کن حالات میں دشمن کا مقابلہ کررہی ہے۔ پنجاب کے علاوہ ہر صوبے میں صوبائی حکومتوں کی ناکامیاں اورناقص کارکردگی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان میں عوام کی بے لوث خدمت کرنے کا جذبہ ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بری طرز حکمرانی سے غیر سیاسی عناصر کو ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی ملک دشمن سرگرمیاں جاری رکھنے کا پورا پوراموقع مل گیا ہے اور وہ چیلنج کرکے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو پامال کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ عسکری قیادت پاکستان کی سالمیت اور عوام کی آزادی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہے۔ افواج پاکستان کی جانب سے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف پہلی با قاعدہ جنگ سوات میں 15نومبر 2007ء کو لڑی گئی۔ ان دنوں مذہبی انتہا پسندوں ، تحریک طالبان اور ان کے ساتھ شامل غیر ملکی ایجنٹوں نے سوات ڈسٹرکٹ پر مکمل قبضہ کرلیا تھا، اور اپنی طرز کی شریعت کا نفاذ کرکے سوات میں ایک عام آدمی کا جینا حرام کردیا تھا۔ اس سے قبل سکولوں ، مساجد، اور دیگر عبادت گاہوں کو بموں سے اڑا کر خوف وہراس کی فضا پیدا کی جارہی تھی۔ صورتحال اتنی زیادہ خراب وخستہ ہو چکی تھی کہ بعض تجزیہ نگاریہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان دشمن طالبان اسلام آباد پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔ سوات ڈسٹرکٹ میں اپنی ''حکمرانی‘‘ کے دوران انہوں نے خواتین کو گھروں میں بند کردیا تھا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی تھی، اور بعض خواتین کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے۔ بین الاقومی شہرت یافتہ ملالہ یوسف زئی کا واقعہ انہی دنوں پیش آیا تھا۔ سوات ڈسٹرکٹ میں ان حالات کو دیکھتے ہوئے عوام الناس کا اس وقت کی حکومت اور افواج پاکستان پر ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ زور پکڑ نے لگا تھا۔ سوات ڈسٹرکٹ میں حالات کو خراب کرنے میں ملا فضل اللہ عرف ملا ریڈیو کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ وہ ایک حکمت عملی کے ذریعے‘ جس میں بعض سیاست دان بھی شامل تھے سوات پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد اپنے طرز کی شریعت کے نفاذ کی کوشش کرنے لگا جس کا اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اقدار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ 24اکتوبر کو افواج پاکستان کی جانب سے سوات ڈسٹرکٹ میں کارروائی شروع کی گئی۔ ابتدا میں تین ہزار بہادر سپاہیوںکے ذریعہ ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو چیلنج کیا گیا۔اس دوران اس لڑائی میں ایک سو تیس طالبان دہشت گرد مارے گئے جن کی تربیت افغانستان اور فاٹا میں بیرونی عناصر نے کی تھی؛ تاہم جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ ان مذہبی انتہا پسندوں اور طالبان نے تقریباً پورے سوات ڈسٹرکٹ پر قبضہ کرلیا تھا، بلکہ بعض جگہ مثلاً تحصیل کابال، فاٹا اور خواص میں اپنے گورنر بھی مقرر کر دیئے تھے۔ ان تمام پاکستان دشمن سرگرمیوں کے پیچھے ملا فضل اللہ کا کردار واضح تھا، جو اس وقت افغانستان میں روپوش ہے اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کررہا ہے۔ آرمی پبلک سکول میں حملہ بھی اسی نے افغان انٹیلی جنس اور بھارت کی ''را‘‘ کی مدد سے کرایا تھا، چنانچہ سوات ڈسٹرکٹ پر ناجائز قبضہ کے بعد پاکستان آرمی نے اس علاقے میں وفاق کی رٹ قائم کرنے کے لئے ایک بھر پور کارروائی کا آغاز کیا تھا، جس میں پانچ ہزار فوجیوں اور پندرہ ہزار پیرا ملٹری فورسز کی مدد شامل تھی۔ اس سے قبل تحریک طالبان اور ان کے حامیوں نے سوات ڈسٹرکٹ پر قبضہ کرنے کے بعد شانگلہ کی طرف پیش قدمی شروع کردی جبکہ پولیس ان کا مقابلہ نہیں کرسکی اور وہاں سے فرار ہوگئی۔ پاکستان کی فوج نے شانگلہ کے قریب‘ تقریباً سو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، لیکن وہ اس دوران شانگلہ کے ڈسٹرکٹ الپوری پر قبضہ کرچکے تھے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک تھی اور اگر پاکستان کی فوج اس سلسلے میں ذرا برابر بھی غلطی کا ارتکاب کرتی تو یہاں طالبان اور دیگر دہشت گردوں کا قبضہ مکمل ہو جاتا جس کو بعد میں خالی کرانا زیادہ مشکل ثابت ہوتا۔ دراصل پاکستان کے ایک عام آدمی کو اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ سوات اور اس کے دیگر علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں سے ملک کی سالمیت سوالیہ نشان بنتی جارہی تھی ؛ تاہم پاکستان آرمی نے شانگلہ ڈسٹرکٹ کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے بعد دوبارہ سوات کی طرف رخ کیا جہاں بعض طالبان عوام کے لئے مشکلات پیدا کررہے تھے،اور اس کو بھی ان درندوں سے پاک کرلیا۔ دراصل افواج پاکستان نے جس میں پاکستان کی پیرا ملٹری فورسز بھی شامل تھیں تحریک طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں سے ایسی جنگ لڑی ہے جو اب مختلف فوجی اداروں کے نصاب میں شامل ہوچکی ہے۔ ہر چند کہ سوات اور اس دیگرعلاقوں میں آپریشن کے دوران یہاں کے عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، اور گھروںسے نقل مکانی بھی کی ہے، لیکن پاکستان کی محبت میں انہوںنے یہ تمام مصائب اور مشکلات برداشت کیں اور فوج کے تعاون سے ان دہشت گردوں کو اس جنت ارضی سے بے دخل کردیا ہے جو غیر ملکی طاقتوں کے آلۂ کار بن کر اسلام کے نام پر ملک کی وحدت سے کھیل رہے تھے۔ اس وقت سوات دوبارہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا مرکز بنتا جارہا ہے، اور کاروبار حیات اپنی تمام تر روایات کے ساتھ جاری و ساری ہے، لیکن پاکستان کی فوج اب بھی ضرب عضب کے عنوان سے دہشت گردوں سے لڑر ہی ہے، اور جب تک ان کا مکمل صفایا نہیں ہو جاتا، یہ جنگ جاری رہے گی۔ اس جنگ میں عوام اور فوج کے تقریباً 60 ہزار افراد نے جام شہادت نوش کیا جبکہ اربوں روپے کی املاک کو ان وطن دشمن عناصر نے نقصان پہنچایا ہے اور اب بھی بعض جگہ مثلاً بلوچستان میں وہ بھارت کی مدد سے ایسا کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی بقاء کی جنگ افواج پاکستان اور عوام مل کر لڑ رہے ہیں، اور اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک ان عناصر کا مکمل قلع قمع نہیں ہو جاتا، یہ ہے وہ سبق جو ہمیں آپریشن راہ حق سے ملتا ہے۔ بہادری اور شجاعت کا یہ سفر جاری و ساری رہے گا۔