بدھ 13 مئی کی صبح تقریباً ساڑھے نو بجے چند دہشت گردوں نے اسماعیلی برادری کے پُرامن اور مہذب کارکنوں کو لے جانے والی بس کو صفورا گوٹھ کے قریب روکا اور اندر داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کر دی‘ جس کے نتیجے میں 17 خواتین سمیت 46 افراد شہید ہو گئے۔ سفاک دہشت گرد تین موٹر سائیکلوں پر تھے‘ جو اپنی گھنائونی کارروائی کے بعد ایک ایسی فضا میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے کہ جب پولیس اور رینجرز سایوں کا تعاقب کررہے ہیں۔ جب یہ اندوہناک سانحہ پیش آیا اُس وقت جائے وقوع کے قریب سچل پولیس سٹیشن کی پولیس چوکی خالی پڑی تھی؛ حالانکہ اسی صفورا گوٹھ پر پہلے بھی دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں واقع بعض کچی آبادیوں میں طالبان اور انتہا پسند چھپے ہوئے ہیں؛ چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہاں اب تک ٹارگٹڈ آپریشن کیوںشروع نہیں کیا گیا۔اب اس افسوس ناک سانحہ کے بعد رینجرز نے اس علاقے میں کچھ لوگوں کو شک و شبے کی بنیاد پر گرفتار کر لیا تھا۔ کراچی پولیس کی طرح دیگر ادارے بھی اس اندو ہناک سانحہ کے ہو جانے کے بعد عوام کے غم و غصہ کوٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی ''کارکردگی‘‘ دکھا رہے تھے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ کچھ ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جنہوں نے سانحہ صفورا کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ حکومت کی یقینا ایک بڑی کامیابی ہے۔
اس المناک سانحہ کے بعد کراچی کے عوام کا یہ سوال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کیا ٹارگٹڈ آپریشن ناکام ہوگیا ہے ؟ اور اگر ناکام ہو گیا ہے تو کیا اس کی براہ راست ذمہ داری سندھ کے بزرگ وزیراعلیٰ پر عائد نہیں ہوتی؟ کیو نکہ ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان وہ ہی ہیں اور وہ ہی Apex Bodyکے روح و رواں بھی؛چنانچہ قائم علی شاہ اپنی نا کامی کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ وہ کسی اور کو موقع فراہم کریں جو مطلوبہ تندہی اور جرأت کے ساتھ امن و امان کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب صحافیوں نے قائم علی شاہ سے استعفیٰ کے بارے میں سوال کیا تو موصوف کا جواب تھا‘ ایسے واقعات شہروں میں ہوتے رہتے ہیں؛ یعنی کراچی خون میں نہاتا رہے گا، بے گناہ افراد کو جرائم میں ملوث کرکے گرفتار بھی کیا جاتا رہے گا لیکن وہ استعفیٰ نہیں دیں گے نہ ہی اپنے وزراء کی کارکردگی کو عوام دوست بنانے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گے۔ پی پی کے بعض حلقوں نے بتایا کہ جنا ب آصف علی زرداری ہی صوبائی حکومت چلا رہے ہیں، قائم علی شاہ محض ایک مہرہ ہیں جو حکم کی تعمیل میں نہ صرف اپنی خیرو عافیت سمجھتے ہیں بلکہ سندھ کی صوبائی حکومت کی بھی‘ جس کے خلاف یومیہ کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں‘ لیکن ان کی تحقیق یا باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ معاشی دہشت گردی کی وجہ سے سندھ کے تمام ادارے تباہ ہو رہے ہیں اور تماشائے اہل کرم دیکھنے والوں کی زبانیں گنگ ہیں، یہ کتنا بڑا المیہ ہے؟
اس صورتحال کے پیش نظر ٹارگٹڈ آریشن کم زور پڑتا نظر آرہا ہے ۔ سندھ میں موجود سیاسی جماعتوں نے ابتدا میں اس آپریشن کی اور سماج دشمن عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کی حمایت کی تھی جب کہ ابتداء میں بعض بد نام دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر گرفتار بھی ہوئے تھے لیکن بعد میں بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اس آپریشن کے بارے میں یہ الزام لگانا شروع کردیا ہے کہ یہ یک طرفہ طور پر کیا جارہا ہے، بلا امتیاز نہیں ہے۔ اس الزام کا جواب صوبائی وزیر دینے سے قاصر رہے؛ چنانچہ ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق جا نبداری کے الزامات نے آپریشن کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ دہشت گردوں نے کمزوری کے اس تاثر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلیٰ پولیس افسران اور سیاسی
کارکنوں کو قتل کرنا شروع کردیا ہے۔ صفورا گوٹھ میں ہونے والے سانحہ نے کراچی کو ایک بار پھر دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ، ان عناصر نے حکومت کو پیغام دیا ہے کہ وہ جب چاہیں جس جگہ چاہیں دہشت گردی کر سکتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ کراچی اب آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ کر شہر کو کسی بڑی تباہی اور مصیبت سے دوچار کر سکتا ہے؛ چنانچہ اب جب کہ سندھ کی حکومت کو 18ویں ترمیم کے بعد غیر معمولی اختیارات حاصل ہوچکے ہیں اس شہر کے حالات کو سدھارنے اور سنوارنے میں ناکام کیوں نظر آرہی ہے۔ کیا یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے کہ اگر سندھ کی حکومت اس طرح ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی تو آپریشن کے اطمینان بخش نتائج نہیں نکل سکیں گے؟ تو وہ وقت دور نہیں جب کراچی کے عوام خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے اور یہ فیصلہ حکمرانوں کے لئے بہت زیادہ تلخی کا باعث بنے گا۔
کراچی کی سول سوسائٹی کا یہ تاثر قابل غور ہے کہ قائم علی شاہ اور گورنر سندھ عشرت العباد کی موجودگی میں کراچی میں نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس شہر کے باسیوں کے بنیادی مسائل مثلاً پانی، بجلی، اور گیس وغیرہ حل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ان دونوں کو عوام کے بہترین مفاد میں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ عوام کے مسائل سے لا تعلقی اور دہشت گردی کے واقعات کو نہ روکنے کی صورت میں بیرونی دشمنوں کو اس شہر میں اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔
کراچی میں 13 مئی کو ہونے والے اندوہناک اور افسوس ناک واقعہ کے پس منظر میں سیاسی اور عسکری قیادت کا سندھ گورنر ہائوس میں غیر معمولی اجلاس ہوا تھا‘ جس میں ایک بار پھر ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق تمام سٹیک ہولڈرز سے تبادلہ خیال کیا گیا۔لیکن اس ا جلاس میں اگر کوئی فیصلے ہوئے ہیں تو ان کا اعلان نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم نے صرف یہ بیان دیا کہ دشمن پاکستان کی اقتصادی ترقی کو روکنا چاہتا ہے خصوصیت کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے دہشت گردانہ کارروائیاں کررہا ہے‘جس کا قلع قمع ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک رسمی سا بیان تھا۔ قوم جانتی ہے کہ گزشتہ15 سالوںسے جاری دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کوکتنا جانی اور مالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ جب کہ افواج پاکستان ہر محاذ پر ان وطن دشمن عناصر کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں۔ دوسری طرف سیاسی قیادت کے پاس نہ تو کوئی وژن ہے نہ ہی کوئی تلخ فیصلہ کرنے کی جرأت۔ اس لئے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جار ہے ہیں۔روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے!